آثار قدیمہ کے حوالے سے کٹاس راج کو امتیازی حیثیت حاصل ہے،ہندو قوم کیلئے یہ ایک مقدس آستانہ ہے،مگر ہندوئوں کے ساتھ ساتھ سکھ،بت مت اور اسلام یعنی چاروں تہذیبوں کا یہ ایک سنگم بھی ہے،اس کی تاریخ پانچ ہزار سال قبل مسیح تک پرانی ہے،دنیا بھر سے ہندو کٹاس راج کی یاترہ کی خواہش رکھتے ہیں ،یہ مقام تاریخ اور آثار قدیمہ میں دلچسپی رکھنے والوں کیلئے بھی کشش کا باعث ہے،یہی وہ مقام ہے جہاں البیرونی نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت زمین کا کتر دریافت کیا،جو معمولی ردوبدل کے بعد جدید دور میں بھی رائج ہے

جب اسلام کا سفر شروع ہوا تو اس وقت بھی مسلمان اقلیت میں تھے، مکہ مکرمہ میں ان کو اکثریت کے جبر کا سامنا کرناپڑا،اس جبر کی وجہ سے انہیں ہجرت کرنا پڑی لیکن جب مدینہ منورہ میں مسلمان اکثریت بن کر ابھرے اور اقتدار ان کے ہاتھوں میں آگیا تو انہوں نے وہاں رہنے والی اقلیتوںکے ساتھ عزت ور احترام کا سلوک کیا،اللہ تعالیٰ کے آخری رسول حضرت محمدؐنے یثرب کے غیر مسلم قبائل اور یہودیوں سے معاہدے کیے،ان کے بنیادی حقوق ادا کرنے کی ضمانت دی،آپؐنے ان کو مدینہ شریف میں مسلمانوں کے ساتھ ایک امت قرار دیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ مسلمانوں کو بطور اقلیت مکہ مکرمہ میں جو جبر اور ظلم برداشت کرنا پڑے،ریاست مدینہ میں آباد اقلیتی افراد کو ایسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے،اللہ کے رسولؐنے حبشہ کے مسیحی بادشاہ نجاشی کو بھی ہمیشہ اچھے الفاظ سے یاد کیا کیونکہ انہوں نے مسلمان اقلیت کے ساتھ حسن سلوک روارکھا تھا وزیر اعظم نوازشریف کے کٹاس راج میں مندر کی تزئین و آرائش اور دیگر منصوبوں کی افتتاحی تقریب سے خطاب کا مکمل متن

بدھ 11 جنوری 2017 21:43

چکوال (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 11 جنوری2017ء) وزیر اعظم نوازشریف نے کٹاس راج میں مندر کی تزئین و آرائش اور دیگر منصوبوں کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران معزز مہمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ جناب الیگزینڈر جان ملک ، ڈاکٹر درشن لعل ، اسفندیاربھنڈارا ،سردار تارہ سنگھ ،محترم صدیق الفاروق،ملک تنویر اسلم صاحب، سردار یوسف اور ہمارے بہت ہی پیارے ہندو،سکھ،مسیحی اور پارسی بہن بھائیو معزز ممبران پارلیمنٹ و خواتین و حضرات میرا سب کو بہت بہت سلام،نمستے،ستسری یاکار،گڈ آفٹر نون بلکہ ہندو،مسلم،سکھ،عیسائی،پارسی بھائی سب کو میرا سلام،مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے،آج یہاں پر آپکی خدمت میں حاضر ہوکر میری خود بہت خواہش تھی کہ میں کسی وقت یہاں آئوں،صدیق الفاروق صاحب کا بہت بہت شکریہ کہ انہوں نے مجھے یہاں آنے کی دعوت دی اور میری خواہش کو پورا کیا اور دوسرا کٹاس راج کے تاریخی مقام پر آکر مجھے اور بھی زیادہ خوشی ہورہی ہے اور آثار قدیمہ کے حوالے سے اس جگہ کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے،ہندو قوم کیلئے یہ ایک مقدس آستانہ ہے،مگر ہندوئوں کے ساتھ ساتھ سکھ،بت مت اور اسلام یعنی چاروں تہذیبوں کا یہ ایک سنگم بھی ہے،اس کی تاریخ پانچ ہزار سال قبل مسیح تک پرانی ہے،دنیا بھر سے ہندو کٹاس راج کی یاترہ کی خواہش رکھتے ہیں اور یہ مقام تاریخ اور آثار قدیمہ میں دلچسپی رکھنے والوں کیلئے بھی کشش کا باعث ہے،یہی وہ مقام ہے جہاں البیرونی نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت زمین کا کتر دریافت کیا،جو معمولی ردوبدل کے بعد جدید دور میں بھی رائج ہے یہ اور باعث اطمینان ہے کہ ان آثار کے تحفظ اور تزئین کیلئے قابل قدر کام کیا گیا ہے،جو آج بھی جاری ہے،میری خوشی کا ایک اور سبب میرے سامنے موجود پانچ مذاہب کے ماننے والے پاکستانیوں کا یہ حسین اور نمائندہ اجتماع بھی ہے،کٹاس راج کا یہ اجتماع پوری دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ پاکستان میں بسنے والے مسلمان ہوں یا مسیحی،ہندویا سکھ،پارسی ہو یا بھائی سب کو برابر کا شہری سمجھا اور مانا جاتاہے،یہ سب آپس میں انسانیت کے ابدی رشتے میں بندھے ہوئے ہیں اور پاکستان کے دفاع،استحکام،امن،ترقی اور خوشحالی کیلئے ہر شعبے میں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کام کر رہے ہیں،یہ بہت خوشی کی بت ہے کہ ہم سب پاکستان کی تعمیر میں اپنا ہاتھ ڈال رہے ہیں،بٹارہے ہیں اور ہم نے اپنے عمل سے اس تصور کو فروغ دیا ہے کہ مذہب سب کا اپنا اپنا لیکن انسانیت ہماری مشترکہ اثاثہ ہے،میں ذاتی طور پر اقلیتوں کی خوشیوں میں شریک ہوتا ہوں اور ان کے دکھ اور سکھ بانٹتاہوں کیونکہ بطور پاکستانی ہماری خوشیاں اور دکھ ایک جیسے ہیں،پاکستان میں سب مذاہب کے مقدس مقامات ہیں،ان کے ماننے والے دنیا بھر سے یہاں آتے ہیں اور میں نے ذمہ دار لوگوں کو تاکید کررکھی ہے،خاص طور پر جناب صدیق الفاروق صاحب کو کہ یاتریوں کی میزبانی اور ان کے مذہبی مقامات کے تحفظ،تزئین،سجاوٹ اورضرورت کے مطابق توسیع میں کوئی کسر نہ اٹھارکھیں،صدیق الفاروق کو اس حوالے سے میں نے ذمہ داری سونپ رکھیہے،مجھے خوشی ہے کہ وہ یہ کام پوری ذمہ داری اور خلوص سے اداکر رہے ہیں،مجھے امید ہے کہ وہ یہ خدمت مزید جان فسانی سے جاری رکھیں گے کیونکہ اقلیتوں کی خدمت سے جہاں پاکستان مضبوط او رنیک نام ہوگا وہاں اللہ تعالیٰ بھی ان سے راضی ہوگا،انہوں نے اقلیتوں کی خدمت کا جو پروگرام مرتب کر رکھا ہے،اور باباگرونانک اور گندھارا انٹرنیشنل یونیورسٹی بنانے کیلئے جو کاوشیں شروع کر رکھی ہیں ان کی تکمیل کیلئے انہوں کو میری ہر طرح کی سپورٹ اور مدد شامل رہے گی،وہ دن دور نہیں جب انہی اقدامات کی بدولت بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو ایک اقلیت دوست ملک کے طور پر جانا جائے گا،میں یہ کہنا چاہتاہوں کہ جب اسلام کا سفر شروع ہوا تو اس وقت بھی مسلمان اقلیت میں تھے،انہیں مکہ مکرمہ میں اکثریت کے جبر کا سامنا کرناپڑا،اس جبر کی وجہ سے انہیں ہجرت کرنا پڑی لیکن جب مدینہ منورہ میں مسلمان اکثریت بن کر ابھرے اور اقتدار ان کے ہاتھوں میں آگیا تو انہوں نے وہاں رہنے والی اقلیتوںکے ساتھ عزت ور احترام کا سلوک کیا،اللہ تعالیٰ کے آخری رسول حضرت محمدؐنے یثرب کے غیر مسلم قبائل اور یہودیوں سے معاہدے کیے،ان کے بنیادی حقوق ادا کرنے کی ضمانت دی،آپؐنے انہیں مدینہ شریف میں مسلمانوں کے ساتھ ایک امت قرار دیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ مسلمانوں کو بطور اقلیت مکہ مکرمہ میں جو جبر اور ظلم برداشت کرنا پڑے،ریاست مدینہ میں آباد اقلیتی افراد کو ایسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے،اللہ کے رسولؐنے حبشہ کے مسیحی بادشاہ نجاشی کو بھی ہمیشہ اچھے الفاظ سے یاد کیا کیونکہ انہوں نے مسلمان اقلیت کے ساتھ حسن سلوک روارکھا تھا،ہمارا تو ایمان ہے کہ ہم نے اکثریت ہو یا اقلیت ہو سب کے ساتھ برابر کا سلوک کرنا ہے،اقلیتوں کو ان کے حقوق دینے ہیں،ان کو نہ صرف ریکونائز کرنا ہے بلکہ اور بھی زیادہ شفقت سے پیش آنا چاہیے،یہ تو ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ قرآن پاک کے اندر ہے کہ جب تک آپ سارے انبیاء کرام کو نہیں مانتے،ساری آسمانی کتابوں کو نہیں مانتے اس وقت تک آپ مسلمان نہیں کہلا سکتے،یہ باتہمارے لیے لازم ہے کہ ہم سب ان پیغمبروں کو بالکل مانیں اورپھر سب آسمانی کتابوں کااحترام کریں اور پھر اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کا حق بجانب ہیں،یہ قرآن پاک میں لکھا ہوا ہے،ہمیں اس کو فالو کرنا ہے یہاں پر ہمارے لوگ پتہ نہیں کیا کیاتشریح کرتے ہیں،مذہب کی دینی اسلام کی،کیاپڑھاتے ہیں،کیا سکھاتے ہیں،میں کچھ علماء کی بات کر رہا ہوں جو علماء کی شکل میں اس طرح کا درس دیتے ہیں،لیکن ہمارے ہاں علماء حق بھی ہیں جو بہت اچھی باتیں کرتے ہیں،ایک دوسرے کا احترام اور تعلق داری کی باتیں کرتے ہیں اور بڑوں کا ادب،چھوٹوں سے پیار کی باتیں کرتے ہیں۔

…(خ م)