کراچی چیمبر اور کے ایم سی کی مشترکہ لائژن کمیٹی کے قیام پر اتفاق،میئرکراچی نے ڈپٹی میئر ارشدوہرہ کو فوکل پرشن مقرر کردیا

بدھ 11 جنوری 2017 21:36

کراچی چیمبر اور کے ایم سی کی مشترکہ لائژن کمیٹی کے قیام پر اتفاق،میئرکراچی ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 جنوری2017ء) میئر کراچی وسیم اختر نے کراچی چیمبر کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئی کے ایم سی اور کے سی سی آئی کے درمیان لائژن کمیٹی قائم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے جس کامقصد کراچی کے بلدیاتی مسائل کو حل کرنا ہے۔ کمیٹی کی سفارشات پر ترجیحی بنیادوں پر اقدامات عمل میں لائے جائیں گے۔کے سی سی آئی میں اجلاس سے خطاب میں انہوں نے ڈپٹی میئر کراچی ارشد وہرہ کو کے ایم سی کے سی سی آئی لائژن کمیٹی کا فوکل پرسن مقرر کیا جبکہ کمیٹی میں کراچی چیمبر کے 4 سے 5 کے قریب نمائندے شامل کیے جائیں گے۔

میئر کراچی میں اعتراف کیا کہ ماضی میں کئی غلطیاں کی گئیں تاہم غلطیوں کو دہرانے اور الزامات لگانے کے بجائے یہی مناسب وقت ہے کہ کراچی کی بہتری کے لیے آگے بڑھ کر سنجیدگی اور نیک نیتی سے ساتھ کام کیا جائے۔

(جاری ہے)

اجلا س میں چیئرمین بزنس مین گروپ و سابق صدر کے سی سی آئی سراج قاسم تیلی،کے سی سی آئی کے صدر شمیم احمد فرپو،سینئر نائب صدر آصف نثار، نائب صدر محمد یونس سومرو،سابق صدر کے سی سی آئی اے کیو خلیل، یونس محمد بشیر،اسمال ٹریڈرز کی خصوصی کمیٹی کے چیئرمین مجید میمن اور منیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی شریک تھے۔

وسیم اخترنے کہاکہ دنیا بھر میں شہری حکومتیں بہت زیادہ بااختیار ہوتی ہیں لیکن بدقسمتی سے کراچی کے معاملے میں صورتحال باالکل مختلف ہے۔ کراچی کی شہری حکومت اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے انتہائی کمزور ہے۔ماضی میں جب اختیارات تھے تو ہم نے ڈیلیور کیا اور اب اہم ایک بار پھر اختیارات دینے کا مطالبہ کررہے ہیں خاص طور پر انتظامی اور مالی معاملات میں اختیارات دینے سے ہی کراچی کی عوام کے لیے کچھ کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔

انہوں نے پچھلی7 یا 8 سال کے حد سے زیادہ ٹیکسوں کی ادائیگیوں کے لیے شہری حکومت کے نوٹسز پر شرکا ء کے تحفظات کے جواب میں یقین دہانی کروائی کہ وہ اس معاملے پر غور کریں گے اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اجلاس بلاکر مناسب حل نکالیں گے۔انہوں نے بلدیاتی مسائل کے حل کے لیے کراچی چیمبر سے تعاون طلب کرتے ہوئے کے ایم سی کی مختلف تجاویز پر مبنی دستاویز بھی پیش کیا جس میں یہ بتایا گیا کہ کس طرح کے سی سی آئی اور کے ایم سی کراچی کے عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے مشترکہ طور پر کام کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ تاجربرادری سے انہیں فنڈز نہیں چاہیے لیکن ہم یہ ضرور چاہتے ہیں کہ تاجربرادری کے ایم سی کے اثاثہ جات اسکولز، پارکس ،اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کو اپنا کر تعاون کرے۔چیئرمین بزنس مین گروپ و سابق صدر کے سی سی آئی سراج قاسم تیلی نے کہاکہ یہ بڑی بدقمستی ہے کہ کراچی کی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی،ایم کیوایم ، اے این پی اور دیگر جماعتیں صرف پارٹی معاملات کو دیکھنے کے سوا کچھ اور کرنے کی زحمت نہیں کرتیں۔

یہی بنیادی وجہ ہے کہ کراچی مسلسل مشکلات سے دوچار ہے۔ کراچی چیمبر ایسے سیاستدانوں کی حمایت کرتا رہا ہے جو کراچی کی بہتری کے لیے کوششیں کرتے ہیں جبکہ شہر کی بہتری کے لیے کچھ کرنے میں ناکام ہونے والوں کی کراچی چیمبر نے ہمیشہ مذمت کی اور ان سے جھگڑے بھی کئے ۔ یہاں تک کہ ماضی میں پی پی پی ، ایم کیوایم اور اے این پی کی اتحادی حکومت بڑے پیمانے پر اختیارات ہونے اور مناسب فنڈز ہونے کے باوجود بھی کسی نے کراچی میں ترقیاتی کام کرنے کی زحمت نہیں کی۔

اٴْس وقت امن وامان کی صورتحال بھی بہت خراب تھی اور کے سی سی آئی نے بڑھتی لاقانونیت پر قابو پانے کے لیے تینوں سیاسی جماعتوں کی توجہ مبذول کراتے ہوئے آواز بلند کی جس کے نتیجے میں سب کو کراچی چیمبر سے شکایت ہوئی لیکن چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی کسی طرح اِن تمام جماعتوں نی2013 میں کراچی آپریشن پر اتفاق کیا۔ جس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے اور اسٹریٹ کرائمز کے سوا مجرمانہ سرگرمیوں میں 70 سے 80 فیصد کمی ہوئی۔

سراج قاسم تیلی نے کہاکہ اسی طرح آج بھی تمام ہی سیاسی جماعتیں مقامی حکومت سے متعلق مسائل پیدا کرنے کی ذمہ دار ہیں اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کوئی بھی اپنے اختیارات سے دستبردار ہونے اور مشترکہ طور پر کام کرنے کے لیے تیار نہیں۔ انہیں کوئی فرق نہیں پڑتاصرف کراچی والے اس رویے کی وجہ سے ہر روز ہی سڑکوں پر مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں۔

انہوں نے نشاندہی کرتے ہوئے کہاکہ شہریوں کو مزید لوٹنے کے لیے اضافی بلز اور ٹیکس کے مطالبے کے نوٹسز بھیج دیے گئے جو پہلے ہی وفاق کی سطح پر ایف بی آر اور صوبائی سطح پر ایس آر بی کی جانب ہراساں ہونے اور لوٹ مار کا شکار ہیں اور اب مقامی حکومت نے بھی یہی عمل شروع کر دیا ہے۔مقامی حکومت کو بیشک ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز درکار ہیں لیکن ریونیو میں اضافے کے لیے جو ہربے استعمال کئے جاتے ہیں وہ غلط ہیں اور ٹیکس نظام میںاصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہاکہ ایف بی آر،ایس آر بی اور مقامی حکومت کے ٹیکس ہونے چاہیے لیکن دہرے ٹیکسوں سے گریز کرنا چاہیے۔ دوم یہ کہ 70 سے 80 فیصد ٹیکس ترقیاتی کاموں کی شکل میں زمین پر نظر تو آئیں تاکہ کرچی والوں کو ریلیف حاصل ہوسکے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہورہا۔انہوں نے میئرکراچی کو مشورہ دیا کہ چھوٹے ترقیاتی منصوبوں پر فوری کام شروع کیاجائے جن میں بالخصوص سڑکوں کی پیوند کاری شامل ہے جس کی تکمیل سے شہریوں کو خاطر خواہ ریلیف ملے گا جو ہر روز کراچی کی سڑکوں پرمشکلات سے دوچار رہتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ موجودہ 2 عملے،محدود فنڈز اور دیگر دستیاب وسائل کو پیوندکاری کے لیے استعمال کیاجائے۔ہمیں کراچی کی بڑی سیاسی جماعت ایم کیوایم سے توقعات ہیں کہ وہ محدود اختیارات اور وسائل کے باوجود ڈیلیورکرے گی جس سے تاجروصنعتکار برادری کا اعتماد یقینی طور پر بحال ہو گا۔ انہوں نے میئر کراچی سے واضح کمٹمنٹ مانگتے ہوئے کہاکہ محدود اختیارات کے باوجود جو بھی ترقیاتی کام اُن کے دائرہ اختیار میں ہیں اٴْن پرکام کل ہی سے شروع ہوتا ہوا نظر آئے گا تو اس اقدام سے ہمیں آپ کی سنجیدگی کا اندازہ ہوگا۔

قبل ازیں کے سی سی آئی کے صدر شمیم احمد فرپو نے میئر کراچی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہاکہ کراچی والے اور تاجروصنعتکار برادری کو محدود وقت میں میئر کراچی سے بہت زیادہ توقعات ہیں۔ایک سال بعد 2018 میں انتخابات ہونے ہیں جن میں سیاسی جماعتوں کی قسمت کا فیصلہ ہوگا اور یہ سب ان کی کارکردگی پر منحصر ہے۔انہوں نے کہاکہ پوری وفاقی حکومت کی توجہ صرف صوبہ پنجاب خاص طور پر لاہور تک محدود ہے جبکہ کراچی شہر جو قومی خزانے میں 65 فیصد سے زائد ریونیو جمع کراتا ہے کو مستقل نظر انداز کیا جارہاہے جس کے نتیجے میں کراچی والوں کی مشکلات میں اضافہ ہورہاہے اور وہ ہر روز سڑکوں پر بری طرح مسائل کا شکار ہیں۔

شمیم فرپو نے شہری حکومت کے کرپٹ افسران کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا جو مختلف اقسام کے ٹیکس نوٹسز بھیج رہے ہیں اور چھوٹے تاجروں کو ہراساں کررہے ہیں جس کا واحد مقصد رشوت طلب کرنا ہے۔

متعلقہ عنوان :