پانامہ کیس کی سماعت ، شیخ رشید نے دلائل شروع کر دئے

شیخ رشید کے دلائل کے دوران احاطہ عدالت میں قہقہے عدالت میں موجود لوگ سنجیدہ ہوں ورنہ عدالت خود سنجیدہ کر دے گی۔ جسٹس شیخ عظمت کا اظہار برہمی

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین بدھ 11 جنوری 2017 12:49

پانامہ کیس کی سماعت ، شیخ رشید نے دلائل شروع کر دئے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔11 جنوری 2017ء) : سپریم کورٹ میں پانامہ کیس سے متعلق درخواستوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ تفصیلات کے مطابق پانامہ کیس میں پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نےآج اپنے دلائل مکمل کر لیے ہیں جس کےبعد عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے پانامہ کیس میں اپنے دلائل کا آغاز کر دیا ہے ۔ سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے شیخ رشید نے کہا کہ عدالت سب کچھ جانتی ہے ہم صرف معاونت کے لیے آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی کسی کہ زیر سایہ ہے تو زیر کفالت کہلائے گا۔ نواز شریف پانامہ کیس میں براہ راست ملوث ہیں۔ وزیر اعظم کی زیر کفالت دو افراد ہیں اور وہ دو افراد ان کی اہلیہ اور ان کی صاحبزادی مریم نواز ہیں۔ شیخ رشید نے کہا کہ اسحاق ڈار نے اربوں روپے دبئی منتقل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔

(جاری ہے)

قطری شہزادہ نواز شریف کے لیے ریسکیو 1122ہے۔ شیخ رشید کے دلچسپ دلائل پر عدالت میں پھر قہقہے گونج اُٹھے جس پر جسٹس شیخ عظمت کا عدالت میں قہقہوں پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں موجود لوگ سنجیدہ ہوں،ورنہ عدالت خود سنجیدہ کرے گی۔

جس کے بعد شیخ رشید نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ قطری خط بیان حلفی کے بغیر ہے۔ قانون کے مطابق زبانی ثبوت براہ راست ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ سنی سنائی بات کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ قطری خط سُنی سنائی باتوں پر مبنی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ قطری خط کی حیثیت ایک ٹشو پیپرسے زیادہ نہیں ہے ۔ شیخ رشید نے کہا کہ اس کیس کے پیچھے اصل چہرہ سیف الرحمان کا ہے۔

جبکہ قطری شہزادہ مین آف دی میچ ہے۔ اپنے دلائل کے دوران شیخ رشید نے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ بھی دیا۔ شیخ رشید نے کہاکہ فروری 2006 کو مریم نواز نے ٹرسٹ ڈیڈ پر لندن میں دستخط کیے۔ ڈیڈ پر بطور گواہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے دستخط موجود ہیں۔ حسن نواز نے 4 فروری 2006کو ڈیڈ پر دستخط کیے۔ دوسرے گواہ وقار احمد کے دستخط میں فرق ہے،یقین سےکہتا ہوں نوٹری پبلک کے سامنے کسی نے دستخط نہیں کیے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کی سفارتخانے سے تصدیق نہیں ہوئی۔شیخ رشید نے کہا کہ ایک فردلندن دوسرا جدہ میں ہوتو تصدیق کیسے ہو سکتی ہے؟ جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ کیا راولپنڈی میں کوئی جائیداد بغیر رجسٹری بیچی جا سکتی ہے؟ انہوں نے شیخ رشید سے کہا کہ جس ٹرسٹ ڈیڈ کا آپ ذکر کر رہے ہیں وہ نیلسن اور نیسکول کی نہیں ہے۔نیلسن اورنیسکول والی ٹرسٹ ڈیڈ بعد میں جمع کروائی گئی۔

لگتا ہے کومبر گروپ کی ٹرسٹ ڈیڈ غلطی سے جمع کروائی گئیں۔ شیخ رشید نے جواب میں کہا کہ راولپنڈی میں جب تک شہادت نہ ہو ایک سائیکل بھی نہیں بکتی ۔شیخ رشید نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جج صاحب ! آپ نے کیس پڑھا ہوا ہے دوسرے فریق نے نہیں۔ جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اگر دونوں دستخط کرنیوالے ٹرسٹ ڈیڈ کو تسلیم کریں تو پھر کیا صورتحال ہو گی؟ جس پر شیخ رشید نے کہا کہ وقار احمد کے دستخطوں پر بھی اعتراض ہے۔

مریم نواز کی بینیفیشل مالک ہونے کی دستاویز کسی نے چیلنج نہیں کیں۔ 19 سال کی عمر میں ہمارے بچوں کا شناختی کارڈ نہیں بنتا، اورشریف خاندان کے بچے 19 سال میں ارب پتی بن جاتے ہیں۔طارق شفیع نے بیان حلفی میں کہا 12 ملین درہم لے کر دے دیے۔ جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ یہ رقم کس کو دی گئی یہ نہیں بتایا گیا۔شیخ رشید کا کہنا تھا کہ 1980 میں دبئی میں 31 بینک تھے کس کے ذریعے رقم منتقل ہوئی؟ شریف خاندان بتائے کہ 1980 سے 2006 تک پیسے کہاں رہے؟جدہ مل میں کام کرنے والے کسی مسلمان کا نام شریف خاندان بتا دے۔

انہوں نے کہا کہ شریف خاندان شروع سے ہی حقائق چھپاتا رہا ہے۔ طانیہ میں کوئی الزام لگ جائے تو ساری جائیداد بک جانے پر بھی جان نہیں چھوٹتی۔ مریم صفدر ہی لندن جائیدادوں کی حقیقی وارث ہیں عام بات ہے کہ 12 ملین درہم میں اسٹیل مل کے نٹ بولٹ بھی نہیں آسکتے۔ مستری اور مزدور طبقے نے ملک کو نقصان نہیں پہنچایا۔ طاقتور لوگوں نے ہی ملک کی جڑیں کاٹی ہیں۔

جس پر جسٹس عظمت نے کہا کہ آپ صادق و امین سےمتعلق جس کیس کا حوالہ دے رہے ہیں وہ جعلی ڈگری سے متعلق ہے۔ شیخ رشید نے کہا کہ ڈگری جعلی ہونا کم جُرم ہے لیکن ٹیکس چوری کرنا بڑا جُرم ہے۔ جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دئے کہ صادق و امین کا ایشو اس عدالت میں مختلف مقدمات میں آیا ہے۔کچھ مقدمات میں شہادتیں ریکارڈ بھی ہوئیں۔سپریم کورٹ میں شیخ رشید کے دلائل تاحال جاری ہیں۔