سیاسی تقاریر ،پوائنٹ سکورنگ کرتے وقت وفاق ،صوبوں کے دائرہ کار کو مدنظر رکھنا چاہئے،چودھری نثار علی خان

سال بعد دہشتگردی کے سب سے کم واقعات 2016ء میں ہوئے ، وفاقی دارالحکومت ،گرد و نواح سے چار افراد کے اغواء ہونے کے واقعات کی تفتیش جاری ہے ،سامنے آنیوالے شواہدقبل از وقت افشا کرنے سے تفتیش پر اثر پڑیگا،کسی کو لاپتہ کرنے کی پالیسی ہے نہ ایسی کوئی بات برداشت کی جائیگی بہت سی خرابیاں اس دور کی پیداوار ہیں‘ جب پالیسی کہیں اور بنتی تھی ،اپوزیشن کا مقصد مجھے نشانہ بنانا ہے، کوئی دن کو رات کہے تو اسے کیسے قائل کیا جاسکتا ہے،دنیا میں دہشتگردی کا گراف اوپر جارہا ہے اور پاکستان میں نیچے آرہا ہے،آج تک کے پی کے یا سندھ حکومت پر کوئی الزام نہیں لگایا ،دہشتگرد افراتفری چاہتے ہیں، ہمیں عزم اور اتحاد کی ضرورت ہے، وفاقی وزیر داخلہ کا سینیٹ میں اظہار خیال

منگل 10 جنوری 2017 23:05

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 جنوری2017ء) وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ سیاسی تقاریر ،پوائنٹ سکورنگ کرتے وقت وفاق ،صوبوں کے دائرہ کار کو مدنظر رکھنا چاہئے،11 سال بعد دہشتگردی کے سب سے کم واقعات 2016ء میں ہوئے ، وفاقی دارالحکومت اور گرد و نواح سے چار افراد کے اغواء ہونے کے واقعات کی تفتیش جاری ہے ،سامنے آنیوالے شواہدقبل از وقت افشا کرنے سے تفتیش پر اثر پڑیگا،کسی کو لاپتہ کرنے کی پالیسی ہے نہ ایسی کوئی بات برداشت کی جائیگی،بہت سی خرابیاں اس دور کی پیداوار ہیں‘ جب پالیسی کہیں اور بنتی تھی ،اپوزیشن کا مقصد مجھے نشانہ بنانا ہے، کوئی دن کو رات کہے تو اسے کیسے قائل کیا جاسکتا ہے،دنیا میں دہشتگردی کا گراف اوپر جارہا ہے اور پاکستان میں نیچے آرہا ہے،آج تک کے پی کے یا سندھ حکومت پر کوئی الزام نہیں لگایا ،دہشتگرد افراتفری چاہتے ہیں، ہمیں عزم اور اتحاد کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

منگل کو سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان نے کہا کہ حکومتیں بنتی رہتی ہیں‘ کسی نے ہمیشہ حکومت میں نہیں رہنا‘ اہم ایشوز پر سیاست اور پارٹی وابستگی کو ایک طرف رکھ کر بات کرنی چاہئے ، ماضی میں یہی روایت رہی ہے۔ ارکان قومی اسمبلی سینیٹ آکر استفادہ کرتے تھے۔ یہاں کی گفتگو سے سیکھتے تھے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں جمہوری ایوان ہیں لیکن اس ایوان کی اپنی روایات ہیں۔

موجودہ چیئرمین نے سینیٹ کے مقصد کو صحیح کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے، اگرچہ اب بھی بہت بڑی گنجائش ہے، انہوں نے کہا کہ جس قومی اسمبلی کے سپیکر یا چیئرمین سینیٹ کو اپوزیشن داد دے وہ قابل ستائش ہیں اور اس عہدے کیلئے زیادہ موزوں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں اغواء کے جو واقعات ہوئے ان میں ایک واقعہ اسلام آباد میں پیش آیا جس میں ایک شخص کو اغواء کیا گیا جبکہ دو واقعات پنجاب میں ہوئے جن میں تین افراد کو اغواء کیا گیا۔

پنجاب حکومت سے بھی رابطہ کرکے معلومات حاصل کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں تین اشخاص اغواء ہوئے ہیں۔ واقعات دو ہیں کیونکہ دو شخص اکٹھے تھے۔ اس لئے ایک ہی ایف آئی آر درج ہوئی ہے ، انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں ہونیوالا واقعہ 6 جنوری کا ہے ،کرال چوک سے آگے ایک گاڑی کو روکا گا جن لوگوں نے گاڑی کو روکا وہ جانے پہچانے تھے یا اجنبی اس کا پتہ نہیں چل سکا، پھر ان کو 8:20 پر سائیڈ پر لے جایا گیا۔

ان کے فون سے ایک گھنٹے بعد ان کے گھر پر فون آیا جس پر تسلی دی گئی اور بتایا گیا کہ ان کی گاڑی فلاں جگہ کھڑی ہے وہاں سے واپس منگالی جائے جس پر گھر والوں کو شک ہوا اور پولیس کو اطلاع دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے سیف سٹی کے منصوبے سے مدد لی گئی ، یہ اسلام آباد کا منصوبہ تھا لیکن چینی کمپنیوں کو قائل کرکے اسی قیمت پر چند کیمرے راولپنڈی کی حدود میں بھی لگوائے ہیں ۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ ان سے حیدر نامی شخص کی گاڑی کے ایک اور گاڑی کے ذریعے تعاقب کا پتہ چلا۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ پولیس افسر کو ان کے اہل خانہ کے گھر بھیجاہے،وزیرداخلہ نے کہا کہ میں یقین دلاتا ہوں گھنائونے جرم کے پس پردہ جو بھی لوگ ہیں ان کا پیچھا کیا جائیگا ، انہوں نے کہا کہ میرا پہلا مقصد پروفیسر کو گھر واپس لانا ہے، وفاقی وزیر نے کہا کہ کچھ شواہد ہیں‘ کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کو قبل از وقت افشاء کرنے سے تفتیش پر اثر پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ تفتیش صحیح سمت میں آگے بڑھ رہی ہے، دونوں واقعات کا بظاہر کوئی آپس میں تعلق نہیں لیکن اغواء کے بعد اغواء ہونیوالی شخصیت کا میسج آیا کہ میرا لیپ ٹاپ گھر آنیوالوں کے حوالے کردیں میں کچھ لوگوں کو بھیج رہا ہوں جس پر گھر والوں نے لیپ ٹاپ حوالے کردیا۔ ان لوگوں نے ٹوپیاں پہن رکھی تھیں اور وہ لیپ ٹاپ لے کر واپس چلے گئے۔ انہوںنے کہا کہ اس واقعہ کو پنجاب حکومت بھی ترجیحا دیکھ رہی ہے ،انہوں نے کہا کہ حکومت کی پالیسی کسی کو لاپتہ کرنے کی ہے نہ ایسی کوئی بات برداشت کرینگے، انہوں نے کہا کہ ساڑھے تین سالوں میں بہت سے لوگوں کا سراغ لگایا ہے ان میں سے کچھ سرحد پار تھے جنہیں واپس بھجوا دیا گیا ہے ، انہوں نے کہا کہ 2002ء سے 2008ء تک ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ بہت سی خرابیاں اس دور کی پیداوار ہیں جب پالیسی کہیں اور بنتی تھی اب پالیسیاں ان ایوانوں میں بنتی ہیں۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ اس ایوان کو نیشنل ایکشن پلان اور قومی سیکیورٹی کے حوالے سے چار تفصیلی بریفنگز دی ہیں۔ ریکارڈ دیکھ لیں میں نے ہر ایک کو کھلا بولنے کا موقع دیا ہے ، انہوں نے کہا کہ میں تب بولنے کیلئے کھڑا ہوا جب دوسری طرف سے تقاریر مکمل کرلی گئیں۔ میں نے پھر بھی کہا کہ اگر کوئی بھی سوال کرنا چاہتے ہے تو لکھ کر کرلے میں نے ان کا بھی جواب دیا، انہوں نے کہا کہ جب میں ایوان میں نہیں تھا تو ایک صاحب نے کھڑے ہو کر اعتراضات کئے۔

کاش ہم میں اتنی اخلاقی جرات ہو کہ موجودگی میں بات کریں جو پارلیمانی روایت بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم قانون ساز اداروں کے ممبر اور باخبر لوگ ہیں‘ ہمیں وفاق اور صوبوں کے دائرہ کار کا پتہ ہونا چاہیے۔چودھری نثار نے کہا کہ سیاسی تقاریر اور پوائنٹ سکورنگ کرتے ہوئے اس دائرہ کار کا تعین کرلیا جانا چاہئے ، انہوں نے کہا کہ پوائنٹ سکورنگ کیلئے حقائق کو مسخ کرنا کسی رکن پارلیمنٹ کے شایان شان نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے ساڑھے تین سال سر نیچے کرکے انٹرنل سیکیورٹی پالیسی کے حوالے سے کام کیا ہے، کبھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں کی۔

سندھ کی ایک سیاسی جماعت کے حوالے سے بیانات چلتے رہتے ہیں لیکن سندھ حکومت اور کے پی کے حکومت کیساتھ میرا ورکنگ ریلیشن شپ موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے 23 جولائی 2013ء کو کراچی کا پہلا دورہ کیا۔ رینجرز ہیڈ کوارٹر گیا اس کے بعد سندھ ہائوس جاکر وزیراعلیٰ اور دیگر سیاسی قائدین سے ملا۔ میں نے وزیراعلیٰ سے کہا کہ ہم ملکر چلیں گے اور کہا کہ جو مثبت پوائنٹ ہوئے وہ آپ کے ہونگے۔

شاید یہ میری غلطی تھی، انہوں نے کہا کہ فاروق ستار نے کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ میں نے کہا کہ سول آرمڈ فورسز کو ذمہ داری دی جائیگی، وزیراعلیٰ کپتان ہوں گے۔ بعد ازاں وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، انہوں نے کہا کہ سیاست کو ایک طرف رکھ کر وفاق اور صوبے نے کراچی آپریشن شروع کیاجس میں بہت پیشرفت ہوئی۔ وفاقی حکومت کے پاس کون سا اختیار ہے جس کے تحت وہ کسی دوسرے صوبے میں انٹیلی جنس شیئرنگ کے سوا آپریشن کر سکتی ہے۔

جتنی انٹیلی جنس شیئرنگ ہمارے دور میں ہوئی ہے پہلے تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی۔ وزیراعلیٰ پنجاب گلہ کرتے ہیں کہ شکارپور واقعہ کے بعد 15/20 د ن میں ہم منطقی انجام تک پہنچ گئے۔ آئی بی کے افسر کو مبارکباد کے لئے فون کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ آپ کی کامیابی ہے جنہوں نے ہمیں سیاسی کام کی بجائے اصل کام پر لگایا۔ اپوزیشن کا مقصد مجھے نشانہ بنانا ہے، کوئی دن کو رات کہے تو اسے کیسے قائل کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ساری دنیا میں دہشتگردی کا گراف اوپر جارہا ہے اور پاکستان میں نیچے آرہا ہے، انہوں نے کہا کہ میری کارکردگی کا موازنہ سابق حکومتوں سے کرائیں‘ 2005ء کے بعد پچھلے سال سب سے کم دہشتگرد حملے ہوئے‘ اس سال گیارہ سال میں پہلی بار دہشتگردی کے واقعات ہزار سے کم ہوئے ہیں۔ یہ زیرو ہونے چاہئیں لیکن جو ہوا ہے اس کا اعتراف تو کریں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے تو آج تک کے پی کے یا سندھ حکومت پر کوئی الزام نہیں لگایا قائم علی شاہ پر جب الزامات کی بھرمار ہوئی تو میں نے ان کے حق میں بیان دیا۔ دہشتگرد تو افراتفری چاہتے ہیں۔ ہمیں عزم اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ میں نے اس کی کوشش کی ہے، انہوں نے کہا کہ مشرف دور میں سیکیورٹی پر وزارت میں کوئی اجلاس نہیں ہوا۔ میں نے 1042 اجلاس کئے‘ وزارت داخلہ میں انسداد دہشتگردی سیکیورٹی اور دیگر معاملات پر وزیراعظم ہائوس میں سیکیورٹی پر 42 اجلاس ہوئے۔

دنیا سے دہشتگردی سنبھالی نہیں جارہی۔ ہمیں بے شک کریڈٹ نہ دیں لیکن پاکستان میں جو امن آیا ہے اس کو خراب نہ کریں۔ صرف فوجی آپریشن سے دہشتگردی ختم نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان‘ سوات میں آپریشن ہوئے اس کے نتیجے میں جو ردعمل پاکستان میں آیا وہ خوفناک تھا۔ روزانہ پانچ چھ حملے ہوتے تھے۔ ہم نے اس کا مداوا کس طرح کیا‘ سب کے سامنے ہے۔

یہ سب کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ بہت بڑا مسئلہ حل ہوا ہے۔ سب سے بڑی قربانی فوج کی ہے جس نے جنوبی وزیرستان کو کلیئر کیا۔ انہوں نے کہا کہ مذاکراتی عمل پر کچھ جماعتوں کو اتفاق نہیں تھا پھر ہم نے ان کو قائل کیا بعد ازاں آپریشن کا فیصلہ ہوا تو پھر کچھ پارٹیوں کو اعتراض تھا ہم نے ان کو قائل کیا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان کی کامیابیوں کو دنیا میں مانا جارہا ہے۔

میرے بارے میں ذاتی باتیں کی گئیں،بات کرتے ہوئے حقائق کو سامنے رکھنا چاہیے‘ میں نے کہا کہ کمیشن کی رپورٹ پر سپریم کورٹ میں مفصل جواب دوں گا۔ سپریم کورٹ نے اس رپورٹ کا جائزہ لینا ،ے۔ مجھے سنے بغیر ایک فیصلہ دے دیا گیا‘ کیا یہ کہنا میرا آئینی حق نہیں، میں نے کہا کہ کوئٹہ کے حوالے سے مجھ سے سوال نہیں کئے گئے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ 19 تاریخ کو اپنا موقف اور کارکردگی سپریم کورٹ میں پیش کرونگا انہوں نے کہا کہ چیئرمین کے کہنے پر مزید بات نہیں کر رہا۔ اللہ ہمیں سچ بولنے کی توفیق دے۔