ہاتھی عدالت کے سامنے کھڑا ہے، اب اس کا شجرہ نسب معلوم کرنا عدالت کا کام ہے ،وزیر اعظم کا عدالت میں پیش ہونا ان کی شان میں کمی نہیں اضافہ کرے گا ،ماضی میں یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھے ،فوجی عدالتیں محدود مدت کیلئے بنائی گئی تھیں اور وہ مدت ختم ہوچکی ہے

امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی پارلیمنٹ ہائوس کے باہر میڈیا سے گفتگو

منگل 10 جنوری 2017 22:44

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 10 جنوری2017ء) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ہاتھی عدالت کے سامنے کھڑا ہے، اب اس کا شجرہ نسب معلوم کرنا عدالت کا کام ہے ،وزیر اعظم کا عدالت میں پیش ہونا ان کی شان میں کمی نہیں اضافہ کرے گا ،ماضی میں یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھے ۔فوجی عدالتیں محدود مدت کیلئے بنائی گئی تھیں اور وہ مدت ختم ہوچکی ہے ۔

وہ منگل کو سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کیس کی سماعت کے بعد پارلیمنٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے ۔اس موقع پر امیرجماعت اسلامی کی لیگل ٹیم اور اسلام آباد کے امیر زبیر فاروق بھی موجود تھے سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ اب سپریم کورٹ پر منحصر ہے کہ وہ ہاتھی کا شجرہ نسب خود معلوم کر تی ہے یا ریاستی اداروںکا تعاون لیتی ہے ۔

(جاری ہے)

وزیراعظم کی تقریروں اور عدالت کے اندر جمع کرا ئی گئی دستاویزات میں بے پناہ تضادات ہیں جن میں قطری شہزادے کا خط بھی شامل ہے قوم چاہتی ہے کہ اس کو جلد از جلد نتیجہ خیزبنایا جائے جس کے لیے وزیراعظم کا خود عدالت میں حاضر ہونا ضروری ہے۔انہوں نے کہاکہ آج ہم نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ وزیراعظم کو طلب کیا جائے۔ وزیراعظم نے خود کو احتساب کے لیے پیش کیا ہے لہٰذا ان کو خود عدالت میں آنا چاہیے۔

انہوں نے کہاکہ مالی ٹرانزکشن میں ہمیشہ جو منافع خور ہوتا ہے ،جو فائدہ اٹھاتا ہے اسے ہی ثابت کرنا پڑتا ہے کہ اس نے جومنافع کمایا ہے اور اس کے پاس جو مال و دولت ہے وہ جائز طریقوں سے کمایا گیا ہے اور اس کا ثبوت بھی وہ خود دیتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا عدالت میں پیش ہونا بری بات نہیں ہے۔ اگردوسرے ممالک میںوزیر اعظم عدالت جاتے ہیں تو ہمارے وزیر اعظم کو بھی عدالت آنے میں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

ملکی تاریخ میں یوسف رضا گیلانی اور پرویز اشرف بھی سپریم کورٹ آئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ حساس معاملہ ہے جس کا جواب وزیر اعظم کو عدالت حاضر ہوکردینا چاہئے اور ان کے بیانات اور عدالت میںجمع کرائی گئی دستاویزات میں جو تضادات ہیں ان کو دور کرنا چاہئے۔ ایک سوال کے جواب میں امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ فوجی عدالتیں حکومت اور اپوزیشن کے اتفاق رائے سے محدود مدت کیلئے بنی تھیں وہ مدت ختم ہو گئی ہے۔

اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ دو سال کے عرصہ میں فوجی عدالتوں کی کارکردگی کو قوم کے سامنے پیش کرے۔ہم چاہتے ہیں سول عدالتوں کو مضبوط بنانا چاہیے، نا صرف ججوں بلکہ ہرشہری کو سیکیورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور ججوں کو بطور خاص سیکیورٹی دینا حکومت کا فرض ہے ۔اپوزیشن فوجی عدالتوں کی توسیع کے حق میں نہیں ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ سول عدالتوں پر عدم اعتماد کا اظہار ہوگا ،اگر فوجی عدالتوں کو مستقل کرنا ہے توکیا سول عدالتوں کو آپ تالا لگائیں گے۔عدلیہ ایک مستقل اور آئینی ادارہ ہے فوجی عدالتیں وقتی ضرورت کیلئے قائم کی گئیںتھیں جنہیں مستقل نہیں کیا جاسکتا۔