پولیو حکومت کیلئے بہت بڑا چیلنج بن گیا ہے اسے قبول کرتا ہوں ،انشاء اللہ جلد سندھ پولیو سے پاک ہو جائیگا، وزیراعلیٰ سندھ

یہ بات بہت تکلیف دہ ہے پنجاب، بلوچستان ، فاٹا اور کے پی کے میں تو بہتری آئی ہے مگر صوبہ سندھ کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے ڈونر ایجنسیاں ILR بھیجیں ،پھر ان سے استفادہ کیا جائے پولیو سنجیدہ مسئلہ ہے ،ہمیں کولنگ سسٹم خریدلینا چاہئے، اجلاس سے خطاب

پیر 9 جنوری 2017 23:42

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 جنوری2017ء) وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ نے کہا ہے کہ پولیو حکومت کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بن گیا ہے اور میں اس چیلنج کو قبول کرتا ہوں اور انشاء اللہ بہت جلد صوبہ سندھ پولیو سے پاک ہو جائیگا۔ انہوں نے یہ بات نیو سندھ سیکریٹریٹ میں پولیو سے متعلق ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔

اجلاس میں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر سکندر میندھرو، ایم این اے ڈاکٹر عذرا پیچوہو، صوبائی پولیو کوآرڈینیٹر شہناز وزیر علی، چیف سیکریٹری سندھ رضوان میمن، آئی جی پولیس اے ڈی خواجہ ، ایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق مہر، سیکریٹری صحت فضل اللہ پیچوہو،تمام ڈیویژنل کمشنرز، سی ای او پی پی ایچ آئی، پروجیکٹ ڈائریکٹر ای پی آئی فیاض جتوئی، وفاقی حکومت ، WHOاور یونیسیف کے نمائندگان نے بھی شرکت کی۔

(جاری ہے)

وزیراعلیٰ سندھ کو بریفینگ دیتے ہوئے پروجیکٹ ڈائریکٹر ای پی آئی فیاض جتوئی نے کہا کہ 2016کے دوران ملک بھر میں 19پولیو کے کیسیز سامنے آئے ان میں سے 8 صوبہ سندھ میں 8کے پی کے میں 2فاٹا میں اور 1بلوچستان میں اور پنجاب میں کوئی بھی کیس سامنے نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں سامنے آنے والے 8کیسیز میں سے 7دیہی علاقوں میں ہیں اور 1کراچی میں۔

وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا گیا کہ 2015میں ملک میں پولیو کے 54کیسیز سامنے آئے تھے جس میں سندھ میں 12،کے پی کے میں 17، فاٹا میں 16، بلوچستان میں 7اور پنجاب میں 2کیس شامل ہیں۔ اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ بات بہت تکلیف دہ ہے کہ پنجاب، بلوچستان ، فاٹا اور کے پی کے میں تو بہتری آئی ہے مگر صوبہ سندھ کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کچھ مسائل ہے جن کا ہمیں تدارک کرنا ہے ۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ ستمبر اور دسمبر 2016کے آخر میں مہم شروع کی گئی تھی جس میں کراچی کا حدف 2.2ملین بچے مقرر کیا گیا تھا اور صوبے کے دیہی علاقوں میں 6.1ملین بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے تھے۔ شہر میں 2.2ملین میں سے 2.6 فیصد بچے دستیاب نہیں تھے اور 1.7 فیصدنے پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کر دیا ۔ اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ 100فیصد نتائج کو یقینی بنائیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم سب کو انسداد پولیو مہم والوں کو اونرشپ دینا ہے نہیں تو صوبہ سندھ ہمیشہ پیچھے رہے گا اور میں اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دونگا۔ اجلاس میں یہ بھی طے کیا گیا کہ کے ایم سی کا عملہ بھی پولیو اور ای پی آئی کی سرگرمیوں میں صحت کی سہولیات کے حوالے سے تعاون کرے۔ اجلاس میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ لانڈھی یوسی 1اور یوسی2 ، سائیٹ یو سی 9، بلدیہ یو سی2 ہائی رسک پر ہیں کیونکہ یہاں پر صحت کی سہولیات کا فقدان ہے۔

اسکے ساتھ ساتھ یوسی4 گڈاپ جنت گل اسپتال غیر فعال ہیں۔ اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے چیف سیکریٹری سندھ کو ہدایت کی کہ وہ کے ایم سی انتظامیہ کے ساتھ بات کریں اور انہیں ہدایت کریں کہ وہ مناسب طریقے سے شرکت کو یقینی بنائیں نہیں تو انکے خلاف کاروائی کی جائیگی۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ سجاول اسپتال میں کوئی ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر نہیں ہے اور گزشتہ جمعے کہ دن DHO'sمٹیار ی اور جامشورو میں تعینات کئے گئی تھے اور چندDHO'sریٹائیرمنٹ کے قریب ہیں گھوٹکی اور قمبر کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسران کے پاس اضافی چارج ہیں ۔

اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے صوبائی وزیر صحت کو ہدایت کی کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسران کی خالی اسامیوں کو پر کریں اور جو ریٹائر ہونے والے ہیں انکے بھی بروقت متبادل کا بندوبست کیا جائے۔ اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسران سے اضافی چارج واپس لیا جائے اور وہاں پر صحیح افسران کو تعینات کیا جائے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ صرف 2200آئس لائنڈ ریفریجریٹر (ILR)ہیں اور بجلی کے بندش کے باعث پولیو ویکسین خراب اور غیر موثر ہو جاتی ہے۔

اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے چیف سیکریٹری کو ہدایت کی کہ وہ سولر سسٹم پر چلنے والے ILRخرید کریں ۔ انہوں نے کہا کہ میں اس بات کا انتظار نہیں کر سکتا کہ ڈونر ایجنسیاں ILR بھیجیں اور پھر ان سے استفادہ کیا جائے کیونکہ پولیو ایک سنجیدہ مسئلہ ہے لہذاہمیں کولنگ سسٹم خریدلینا چاہیے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے صوبائی وزیر صحت اور سیکریٹری صحت کو ہدایت کی کہ وہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو فعال کریں اور انکی خدمات سے صوبے سے پولیو کے خاتمے کے لئے استفادہ کریں۔

وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا گیا کہ وہ احتجاج پر ہیں کیونکہ انکی گزشتہ چار ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی جارہی ہیں۔ اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے محکمہ خزانہ کو حکم دیا کہ وہ فوری طور پر فنڈز جاری کریں تاکہ انکی تنخواہیں ادا کی جاسکیں۔جب وزیراعلیٰ سندھ، سندھ سیکریٹریٹ سے واپس آرہے تھے تو لیڈی ہیلتھ ورکز پی سی ہوٹل کے نزد احتجاج کر ر ہی تھیں اور وہ اپنی کار وہاں لے گئے اور انہوں نے انکو بتایا کہ انہوں نے انکی تنخواہیں جاری کرا دی ہیں۔

جس پر لیڈی ہیلتھ ورکرز مطمین نہیں ہوئی اور انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ کے ساتھ بیٹھ کر مسائل کے حل کا مطالبہ کیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے ان میں سے 9لیڈی ہیلتھ ورکرز کو وزیراعلیٰ ہائوس میں بلوایا اور ان سے کانفرنس روم میں ملاقات کی ۔ ملاقات میں صوبائی وزیر ڈاکٹر سکندر میندھرو، وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری نوید کامران بلوچ، سیکریٹری صحت فضل اللہ پیچوہو، سیکریٹری خزانہ حسن نقوی بھی شریک تھے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وہ پہلے ہی لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تنخواہوں کے اجراء کا کہہ چکے ہیں اور انکے باقی ماندہ مسائل مثلا انکی گاڑیوں کی مرمت ، پیٹرول کی فراہمی اور انکی تنخواہوں کی بروقت ادائیگی بھی حل کر لیئے جائینگے۔ انہوں نے سیکریٹری صحت کو ہدایت کی کہ وہ لیڈی ہیلتھ ورکرز سے ملاقات کر کے انکے مسائل 3دن کے اندر حل کردیں۔