13کے انتخابات،17حلقوں میں 95 فیصد خواتین نے ووٹ نہیں ڈالے

کچھ حلقوں میں خواتین ووٹرز مردوں سے سبقت لے گئیں، اسلام آبادمیں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 61 مردوں کا 60 فیصد تھا،الیکشن کمیشن

اتوار 1 جنوری 2017 15:40

�سلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 جنوری2017ء) 2013 میں ملک میں ہونے والے قومی اسمبلی کے 17 حلقوں میں 95 فیصد سے زائد رجسٹرڈ خواتین نے اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کیا۔نجی ٹی وی کے مطابق الیکشن کمیشن کے دستاویزات سے معلوم ہوا کہ ان 17 حلقوں میں سے پانچ حلقوں میں خواتین کا ٹرن آؤٹ ایک فیصد سے بھی کم رہا۔اپر دیر کے حلقہ این اے 33 میں ایک لاکھ 38 ہزار 910 ووٹروں میں صرف ایک خاتون نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، جب کہ اس سے ملحقہ حلقے این اے 34 لوئر دیر میں خواتین ووٹرز کا ٹرن ا?ئوٹ 0 اعشاریہ 11 فیصد رہا، جہاں 2 لاکھ 6 ہزار 566 ووٹروں میں سے صرف 234 ووٹرز خواتین تھیں۔

این ای37 کرم ایجنسی میں ایک لاکھ 56 ہزار811 ووٹرز میں سے صرف 459 ووٹرز خواتین تھیں اور اس حلقے میں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 0 اعشاریہ 29 فیصد رہا، شورش زدہ علاقے خیبر ایجنسی کے حلقے این اے 34 میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 0 اعشاریہ 02 فیصد رہا جب کہ خیبر ایجنسی کے این اے 46 میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 0 اعشاریہ 2 فیصد تھا۔

(جاری ہے)

شورش زدہ علاقوں کی روایات اور وہاں کی بدامنی کی وجہ سے صرف وہاں خواتین کا ٹرن آؤٹ کم نہیں رہا بلکہ پنجاب کے بڑے شہروں میں بھی خواتین کا کم ٹرن آؤٹ رپورٹ کیا گیا۔

ملتان کے این اے 152 میں خواتین کا ٹرن آؤٹ صرف ایک اعشاریہ 92 فیصد رہا، جہاں تین لاکھ 90 ہزار ووٹرز میں سے صرف 75 ہزار422 خواتین نے اپنا حق رائی دہی استعمال کیا، اس حلقے میں مردوں کا ٹرن آؤٹ 2 اعشاریہ 13 فیصد رہا۔این اے 178 مظفرآباد میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 2 اعشاریہ 13 فیصد رہا، جب کہ اس کے ملحقہ حلقے این اے 177 میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 2 اعشاریہ24 فیصد رہا۔

این اے 175 راجن پور میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 2 اعشاریہ 34 فیصد، این اے 174 راجن پور میں 2 اعشاریہ 71 فیصد، این اے 145 اوکاڑہ میں 2 اعشاریہ 82 فیصد، این اے 61 چکوال میں 4 اعشاریہ 42 فیصد جب کہ این اے 64 سرگودھا میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 9 اعشاریہ 59 فیصد رہا۔دستاویزات کے مطابق این اے 31 شانگلہ میں 4 اعشاریہ 59 فیصد رجسٹرڈ خواتین نے اپنا ووٹ استعمال کیا، بلوچستان کے ضلع خاراں کے حلقے این اے 271 میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 3 اعشاریہ 51 فیصد رہا جو حیران کن طور پر وہاں مردوں کے ٹرن آؤٹ 3 اعشاریہ 04 فیصد سے زیادہ تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ حلقوں میں خواتین ووٹرز مردوں سے سبقت لے گئیں، اسلام آباد کے حلقے این اے 48 میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 61 اعشاریہ 75 فیصد رہا، جب کہ اسی حلقے میں مرد ووٹروں کا ٹرن آؤٹ صرف 60 اعشاریہ 01 فیصد تھا۔اسی طرح راولپنڈی کے حلقے این اے 51 میں 52 اعشاریہ 31 فیصد مردوں کے مقابلے 53 اعشاریہ 24 فیصد رجسٹرڈ خواتین نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، جب کہ اٹک کے حلقے این اے 58 میں خواتین کا ٹرن ا?ؤٹ 64 اعشاریہ 35 فیصد رہا، اس حلقے میں مردوں کا ٹرن آؤٹ 61 اعشاریہ 81 فیصد رہا۔

جہلم کے حلقے این اے 62 میں 17 اعشاریہ 71 فیصد خواتین جب کہ 16 اعشاریہ 67 فیصد مردوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، جن حلقوں میں خواتین کا ٹرن ا?ؤٹ مردوں سے زیادہ رہا ان میں بھکر کاحلقہ این اے 93، ٹوبا ٹیک سنگھ کا حلقہ این اے 101، گوجرانوالہ کا حلقہ این اے 103، مظفرآباد کا حلقہ این اے 111 اور 112، سیالکوٹ کا حلقہ این اے 115 ، نارووال کا حلقہ 116 اور مظفرآباد کا حلقہ این اے 180 شامل ہے۔

الیکشن کمیشن نے مردم شماری کے ایسے 26 ہزار بلاکس کی نشاندہی کی ہے جہاں درج ووٹوں میں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کی تعداد 40 فیصد سے بھی کم ہے۔ الیکشن کمیشن کے ایک اور دستاویز سے پتہ چلا ہے پنجاب کے 10 ہزار440 آدم شماری کے بلاکس میں رجسٹرڈ خواتین کی تعداد کم ہے، ان ا?دم شماری کے بلاکس میں لاہور سرفہرست ہے۔پنجاب کے جن آدم شماری بلاکس میں رجسٹرڈ خواتین کی تعداد کم ہے ان میں لاہور کے 872، سیالکوٹ کے 755، رحیم یار خان کے 743، شیخوپورہ کے 733، نارووال کے 620، قصور کے 509، بہاول نگر کے 501 اور جھنگ کے 490 بلاکس شامل ہیں۔

سندھ کے جن مردم شماری بلاکس میں رجسٹرڈ خواتین کی تعداد کم ہے ان میں کراچی غربی کے 1575، کراچی وسطی کے 629، ملیر کے 560، کراچی جنوبی کے 590، اور کورنگی کے 401بلاکس شامل ہیں، جب کہ گھوٹکی کی258 ، حیدرآباد کے 204، خیرپور کے 131 اور کشمور کے 117 بلاکس شامل ہیں۔خیبرپختونخوا کے کئی بلاکس میں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کی تعداد 40 فیصد سے بھی کم ہے، جن بلاکس میں کم خواتین رجسٹرڈ ہیں ان میں لوئر دیر کے 601 ، کوہستان کی600، اپر دیر کے 469، پشاور کے 343، مردان کے 250، مانسرہ کے 147، چترال کے 138، چارسدہ کے 132، بٹاگرام کے 127 اور بنوں کے 103 بلاکس شامل ہیں۔

بلوچستان کے جن بلاکس میں رجسٹرڈ خواتین کی تعداد کم ہے ان میں خضدار کے 554، قلات کے 315، کوئٹہ کے 223، ڈیرا بگٹی کے 208، قلعہ عبداللہ کے 196، کوہلو کے 188، پشین کے 162، آواران کے 143، مستونگ کے 137، لہری کے 132، لورالائی کے 125،لسبیلہ کے 121، کچھی کے 114 اور جھل مگسی کے 105 بلاک شامل ہیں۔فیڈرل ایڈمنسٹریٹڈ ٹرائبل ایریاز(فاٹا) کے جن بلاکس میں رجسٹرڈ خواتین کی تعداد کم ہے ان میں شمالی وزیرستان کے 736، باجوڑ کے 350، مہمندایجنسی کے 337، جنوبی وزیرستان کے 266، خیبرایجنسی کے 240، ایف آر بنوں کے 141، کرم ایجنسی کی121 اور وفاقی دارلحکومت کے 53 بلاکس شامل ہیں۔

متعلقہ عنوان :