امریکی صدر باراک اوباما کی معروف پاکستانی سکالرو شاعر پروفیسر علامہ نصیرالدین ہنزائی کو 100ویں سالگرہ پر مبارکباد

پروفیسر علامہ نصیرالدین ہنزائی کے عالمانہ کام اور تحقیق سے آنے والے برسوں میں لوگ مستفید ہوتے رہیں گے،صدراوباما

اتوار 1 جنوری 2017 11:00

واشنگٹن ۔ یکم جنوری (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 01 جنوری2017ء) امریکا کے صدر باراک اوباما نے معروف پاکستانی سکالر اورشاعر پروفیسر علامہ نصیرالدین ہنزائی کو ان کی 100ویں سالگرہ پرمبارکباد دیتے ہوئے اس امید کا اظہارکیا ہے کہ ان کے عالمانہ کام اور تحقیق سے آنے والے برسوں میں لوگ مستفید ہوتے رہیں گے۔ وائٹ ہائوس سے جاری بیان کے مطابق صدر اوباما نے پروفیسر علامہ نصیرالدین ہنزائی کے نام اپنے ایک مکتوب میں انہیں مبارکباد دیتے ہوئے ان کیلئے اپنی نیک تمنائوں کا اظہارکیا ہے۔

صدر اوباما نے امریکی معاشرے کیلئے ان کی خدمات کو بھرپورخراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس امید کا اظہارکیا کہ آنے والے سالوں میں وہ اسی جذبے کو قائم رکھے گے ۔ علامہ نصیرالدین ہنزائی 1917ء میں ہنزہ کے ایک گائوں حیدرآباد میں پیدا ہوئے اور انہوں نے قرآن کریم کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں 100 سے زائد کتابیں لکھی ہیں جن میں روحانیت اور صوفی ازم پر کتابیں بھی شامل ہیں۔

(جاری ہے)

ان کی بے مثال خدمات پر حکومت پاکستان نے انہیں 2001ء میں ستارہ امتیاز سے نوازا تھا ۔ ڈاکٹر فقیر ہنزائی اورراشدہ ہنزائی نے ان کی 60کتابوں کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ ان کی چار کتابیں جن میں ’’بک آف ہیلنگ‘‘بھی شامل ہے ، نے تحقیق کے مغربی اداروں کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا۔ ان کی دیگرکتابوں میں ’’روبیز اینڈ پرلز’’،’’ہیلنگ تھرو نالج’’،’’تھائوزنڈ وزڈم ’’،’’فروٹ آف پیراڈائز’’،’’ اور گنج گراں مایہ‘‘شامل ہیں۔

انہیں گلگت بلتستان میں بولی جانے والی مقامی زبان بروشسکی کے پہلے حروف تہجی تشکیل دینے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ امریکی صدر نے اپنے مکتوب میں نصیرالدین ہنزائی کو لوگوں کیلئے مشعل راہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے کام سے آنے والے برسوں میں بھی لوگ استفادہ کریں گے اور وہ مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کیلئے بھی روحانی فیض کا ایک ذریعہ ہیں۔

ان کی کتاب فلاورز آف پیراڈائز ان کی شاعری کا منظوم ترجمہ ہے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے بروشسکی اور اردو زبان کی پہلی ڈکشنری بھی مرتب کی ہے جس میں کراچی یونیورسٹی اور بروشسکی ریسرچ اکیڈمی نے بھی اپنا تعاون پیش کیا۔ وہ کئی ادبی اورسماجی تنظیموں کے بھی رکن رہے ہیں۔ حکومت گلگت بلتستان نے انہیں حکیم القلم ، لسان قوم اور بابائے بروشسکی کے خطابات بھی دیئے ہیں۔

اس کے علاوہ وہ جرمنی کے ہائیڈل برگ یونیورسٹی سے پبلش شدہ بروشسکی جرمن ڈکشنری کے شریک مرتب بھی ہیں۔ علامہ نصیرالدین نے خواتین کے حقوق اور صورتحال پربھی کئی مضامین لکھے ہیں۔ وہ ایک مصلح کے طور پربھی علاقے میں مشہور ہیں اور ان کی کوششوں سے ہنزہ میں پہلی مرتبہ رضاکارانہ بنیادوں پر کام کرنے کا سلسلہ شروع ہوا،1957ء میں انہوں نے اس طرح کی پہلی رضا کار تنظیم حیدرآباد گائوں میں قائم کی۔ اس کے علاوہ اسی سال انہیں علاقے میں لڑکیوں کے لئے سکول قائم کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

متعلقہ عنوان :