پاکستان میں جنگجوحملے ایک دہائی میں کم ترین سطح پر پہنچ گئے‘ پکس نے سالانہ رپورٹ جاری کردی

2016 ئ میں حملوں میں مزید 30 فیصد کمی‘ ہلاکتیں 28 فیصد کم ہو گئیں‘ زخمیوں کی تعداد میں اضافہ،ماہانہ جنگجو اوسط میں بھی کمی‘ بلوچستان میں حالات خراب رہے‘ جہاں سب سے زیادہ حملے‘ ہلاکتیں اور زخمی ہوئے خود کش حملوں میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں‘ لاہور گلشن پارک‘ چارسدہ اور مردان کچہریاں‘ کوئٹہ میں وکلا‘ خضدار درگاہ شاہ نورانی بڑے حملوں میں شامل پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز کی سالانہ رپورٹ جاری

جمعہ 30 دسمبر 2016 20:58

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 30 دسمبر2016ء) پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز نے کہاہے کہ 2016 ئ میں جنگجو حملوں میں مزید 30 فیصد کمی‘ بلوچستان میں حالات خراب رہے‘ خود کش حملوں میں خاطر خواہ کمی نہ آسکی‘ بم دھماکوں میں زبردست کمی‘ مجموعی ہلاکتوں کی تعداد میں 28 فیصد کمی لیکن زخمیوں کی تعداد 24 فیصد بڑھ گئے‘ سیکیورٹی فورسز نے مزید 859 جنگجو ہلاک اور 4142 گرفتار کر لیے‘ ماہانہ جنگجو حملوں کی اوسط 60 سے کم ہو کر 42 رہ گئی‘ تشدد 2007 ئ سے کم سطح پر پہنچ گیا‘ تفصیلات کے مطابق جمعہ کوریاست مخالف تشدد پر نظر رکھنے والے آزاد تحقیقاتی ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز (پکس ) نے سال 2016 ئ کے اعداد و شمار جاری کر دیئے ہیں جن کے مطابق ملک میں ریاست مخالف جنگجو حملوں اور ہلاکتوں کی تعداد میں تو کمی آئی ہے تاہم زخمیوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

(جاری ہے)

بلوچستان میں حالات سب سے زیادہ خراب رہے جہاں سب سے زیادہ جنگجو حملے‘ ہلاکتیں اور زخمیوں کی تعداد ریکارڈ کی گئی۔ پکس کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں جنگجو حملوں کی تعداد میں تیس فیصد ‘ ان حملوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں اٹھائیس فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ 2015 کے مقابلے میں زخمیوں کی تعداد میں 24 فیصد اضافہ ہوا۔

2016ئ میں ماہانہ جنگجو حملوں کی تعداد مزید کم ہو کر 42 رہ گئی۔ 2015 ئ میں یہ اوسط 60 حملے ماہانہ تھی۔ یاد رہے کہ آپریشن ضرب عضب سے پہلے ہر ماہ اوسطاًً 161 جنگجو حملے ہوا کرتے تھے۔ نیشنل ایکشن پلان کے دو سال مکمل ہونے پر مجموعی طور پر ملک میں جنگجو حملوں کی تعداد میں 68فیصد ‘ ہلاکتوں کی تعداد میں 62 فیصد اور زخمیوں کی تعداد میں 48 فیصد غیر معمولی کمی دیکھنے میں آئی۔

ملک میں ریاست مخالف تشدد 2007 ئ سے کم کی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ یاد رہے کہ 2007 ئ میں لال مسجد آپریشن کے بعد ملک میں تشدد کی ایک غیرمعمولی لہر شروع ہوئی تھی۔ پکس ملی ٹنسی ڈیٹا بیس کے مطابق ریاست مخالف حملوں کی تعداد 2006 ئ کے مقابلے میں اب بھی زیادہ ہے۔ پکس رپورٹ کے مطابق 2016 ئ پانچ سو تقریباًً پانچ سو (498) جنگجو حملے ہوئے جن میں 950 افراد ہلاک اور 1815 زخمی ہوئے‘ سب سے زیادہ صورتحال بلوچستان میں خراب ہوئی جہاں سب سے زیادہ حملے ‘ ہلاکتیں اور زخمیوں کی تعداد ریکارڈ کی گئی۔

گو کہ مجموعی طور پر بلوچستان میں جنگجو حملوں کی تعداد میں 35 فیصد کمی آئی تاہم ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد میں بالترتیب 27 اور 121 فیصد اضافہ ہوا۔ ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد میں اضافے کی بنیادی وجہ تین ہائی پروفائل حملے تھے جن میں کوئٹہ میں سول ہسپتال کے باہر وکلاپر خود کش حملہ‘ پولیس ٹریننگ اکیڈمی پر حملہ اور خضدار میں درگا شاہ نورانی پر خود کش حملہ شامل ہیں۔

اگر بلوچستان کا 2015 سے تقابل کیا جائے تو 2015 ئ میں صوبے میں جنگجو حملوں میں 71 فیصد کی غیرمعمولی کمی آئی تھی جبکہ ہلاکتوں میں 65 فیصد اور زخمیوں میں 65 فیصد کمی آئی تھی۔ بلوچستان کے علاوہ ملک کی دیگر تمام انتظامی اکائیوں میں ریاست مخالف تشدد میں کمی ریکارڈ کی گئی۔ فاٹا میں جنگجو حملوں میں 35 فیصد‘ ہلاکتوں میں 59 فیصد‘ اور زخمیوں میں 46 فیصد کمی آئی۔

خیبر پختونخواہ میں جنگجو حملوں میں 13 فیصد اور ہلاکتوں میں 15 فیصد کمی آئی تاہم زخمیوں کی تعداد میں 46 فیصد اضافہ ہوا۔ پنجاب میں بھی زخمیوں کی تعداد میں 38 فیصد اضافہ ہوا تاہم جنگجو حملوں کی تعداد میں 63 فیصد اور ہلاکتوں میں 20 فیصد کمی آئی۔ باقی صوبوں اور انظامی اکائیوں کے مقابلے میں پنجاب میں سلامتی کی صورتحال میں بہتری کی شرح 2015 کے مقابلے میں بہتر رہی۔

2015 ئ میں جنگجو حملوں کی تعداد میں 20 فیصد کمی آئی تھی جبکیہ 2016 میں 63 فیصد کمی آئی۔ سندھ میں جنگجو حملوں کی تعداد میں 26 فیصد جبکہ ہلاکتوں اور زخمی کی تعداد میں بالترتیب 75 اور 36 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ 2016 ئ میں بھی جنگجو اپنے اہداف کے حصول کے لیے کئی اقسام کے حملے کرتے رہے۔ پکس ڈیٹابیس کے مطابق خود کش حملوں کی تعداد میں 2015 ئ کے مقابلے میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔

2015 ئ میں 18 خود کش حملے ہوئے تھے جبکہ 2016 ئ میں یہ تعداد 16 رہی۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں بھی خود کش حملوں میں ہوئیں۔326 افراد ہلاک اور 879 خود کش دھماکوں میں زخمی ہوئے۔ان حملوں میں چارسدہ کچہری‘ لاہور گلشن پارک‘ کوئٹہ سول ہسپتال ‘ مہمند ایجنسی میں نماز جمعہ کے دوران مسجد میں دھماکہ‘ مردان کچہری اور خصدار میں درگاہ شاہ نورانی پر ہونے والے حملے سب سے زیادہ مہلک تھے۔

خود کش حملوں کے بعد 2016 میں سب سے زیادہ ہلاکتیں دو بدو جنگجو حملوں میں ہوئیں۔ ایسی100 حملوں میں 270 افراد ہلاک اور 270 زخمی ہوئے ‘ بم دھماکے (آئی ای ڈیز )حسب معمول سب سے زیادہ استعمال ہونے والا جنگجو ہتھیار رہا تاہم بم دھماکوں کے مہلک پن میں غیرم معمولی کمی دیکھنے میں آئی جس سے انداز ا کیا جا سکتا ہے کہ جنگجوئوں کی بم بنانے کی صلاحیت آپریش ضرب عضب کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

2016 ء میں 173 بم دھماکوں میں 153 افراد ہلاک ہوئے‘ ریاست مخالف جنگجوئوں کی طرف سے ٹارگٹ کلنگ کے 131 واقعات میں 154 افراد ہلاک اور 36زخمی ہوئے‘ جنگجوئوں نے گزشتہ ایک سال کے دوران 35 دستی بم حملے‘ چار راکٹ حملے‘ دو مارٹر حملے اور گیارہ کریکر حملے کیے ‘ جبکیہ اغوا کے سترہ واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے جنگجو?ں کے خلاف سال 2016 ء میں 1104 ایکشن کیے جن میں 859 مشتبہ جنگجو ہلاک اور 4142 گرفتار کیے ہوئے۔ 2015 ء کے دوران 1987مشتبہ جنگجو ہلاک اور 6349 گرفتار ہوئے تھے۔