سول سوسائٹی تنظیموں کا حکومت سے بلاجواز پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ

فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک کے زیرِ اہتمام مشاورتی اجلاس میں این جی اوز کے لیے ایک قانون بنانے کی قرارداد منظور

جمعرات 29 دسمبر 2016 22:09

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 دسمبر2016ء) پاکستان کی نمایاں سول سوسائٹی تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ غیر منافع بخش اداروں کی رجسٹریشن اور نگرانی کے لیے ایک جامع مشاورتی عمل شروع کیا جائے جس میں تمام متعلقہ حلقوں کو شامل کیا جائے۔فری ایند فئیر الیکشن نیٹ ورک کے زیرِ اہتمام اسلام آباد میں بلائے جانے والے اجلاس میں سول سوسائٹی تنظیموں کی جانب سے منظور کی گئی متفقہ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ غیر منافع بخش اداروں کی رجسٹریشن اور نگرانی کے لیے نافذالعمل دس سے زائد موجودہ قوانین کی بجائے ایک ہی قانون کا نفاذ کیا جائے جو احتساب اور آزادی کے تمام تقاضوں پر پورا اترتا ہو۔

قرارداد اکنامک افئیرز ڈویژن کی جانب سے قومی سطح کی غیر سرکاری تنظیموں کی رجسٹریشن کے لیے نئے ضوابط کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پہلے سے نافذالعمل قوانین اور نگرانی کے اداروں کی موجودگی میں ان ضوابط کی ضرورت نہ ہے۔

(جاری ہے)

ان نئے ضوابط میں غیرسرکاری اداروں کو غیر ملکی فنڈنگ کی تفصیلات حکومت کو فراہم کرنے کا پابند کیا گیا ہے جبکہ یہ تفصیلات پہلے سے ہی متعلقہ اداروں کو مہیّا کی جارہی ہیں۔

مشاورتی اجلاس میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ رجسٹریشن، نگرانی اور شفافیت جیسے معاملات پر متفقہ لائحہ عمل بنانے کے لیے حکومتی اداروں، ڈونرز اور ملکی و بین الاقوامی غیرسرکاری تنظیموں پر مبنی فورم کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اجلاس میں منظور کی گئی قرارداد میں حکومتی حلقوں کی جانب سے غیر قانونی پابندیوں اور سختیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

غیر سرکاری اداروں کے لیے ون ونڈو آپریشن کی طرز پر نظام وضع کیا جائے۔ سول سوسائٹی تنظیموں نے منافع بخش اداروں کی جانب سے سماجی خدمت کے کاموں کو ٹھیکیداری کے اصولوں پر چلانے کی روش کو بھی ہدفِ تنقید بنایا اور اسے سماجی و معاشرتی بہبود کے لیے خطرناک رجحان قرار دیا۔ مشاورتی اجلاس میں انسانی و نسوانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ کارکن صحافی، وکلا تنظیموں و دیگر پیشہ وارانہ تنظیموں کے عہدیداروں اور سکیورٹیز اینڈ ایکسچینچ کمیشن کے نمائندے نے بھی شرکت کی۔

اس موقع پر بات کرتے ہوئے انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے سربراہ آئی اے رحمان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں نہ صرف سول سوسائٹی بلکہ جمہوری اقدار اور انصاف کے مواقع بھی کم ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیرسرکاری شہری تنظیموں کو کام کرنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرے نہ کہ ان کی راہ میں روڑے اٹکائے۔پتن تنظیم کے نیشنل کوآرڈینیٹر سرور باری کا کہنا تھا کہ پورے پاکستان بالخصوص جنوبی پنجاب میں سول سوسائٹی کو ہراساں کیا جارہا ہے اور انہیں آزادانہ کام کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔

انہوں نے شہری تنظیموں کو متحد ہو کر احتجاج کرنے اور عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے کی تجویز بھی دی۔عورت فاؤنڈیشن کے سربراہ نعیم مرزا کا کہنا تھا کہ غیرسرکاری اداروں نے ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور حکومت اس کردار کو سراہنے کی بجائے ان پر پابندیاں لگانے کے درپے ہے۔ فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر شاہد فیاض نے اس موقع پر کہا کہ سول سوسائٹی کے خلاف حالیہ حکومتی اقدامات بلاجواز ہیں۔

سکیورٹیز اینڈ ایکسچینچ کمیشن کے ڈائریکٹر مبشر سعید سدوزئی کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی غیرسرکاری تنظیموں کی رجسٹریشن وزارتِ داخلہ نے اپنے ذمہ لے لی ہے جبکہ قومی سطح کی تمام تنظیموں کی رجسٹریشن کمیشن ہی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فی الوقت ساڑھے آٹھ سو غیر سرکاری ادارے کمیشن کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ساؤتھ ایشیا پارٹنر شپ پاکستان کے نمائندے محمد تحسین نے ڈونر اداروں کی جانب سے مالکانہ طرزِ عمل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پاکستان جیسے ممالک میں سول سوسائٹی کو رقم کی بجائے شراکت کی زیادہ ضرورت ہے۔