سکیورٹی اور آئیڈیالوجی کے بیانئے نے سول سوسائٹی کیلئے جگہ تنگ کر دی ہے، سینیٹر فرحت اللہ بابر

سیاسی پارٹیوں کو چاہیے میثاق جمہوریت کی طرز پر بنیادی شہری آزادیوں کیلئے ایک چارٹر بنائیں نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے ملازمین کے بنیادی حقوق جھٹلائے جا رہے ہیں، صورتحال کو درست کرنے کی کوئی بھی کوشش نیشنل سکیورٹی مفادات کیخلاف تصور کی جاتی ہے، سیمینار سے خطاب

جمعرات 29 دسمبر 2016 22:03

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 دسمبر2016ء) پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے جمعرات کے روز کراچی میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کراچی میں پاکستان میں شہری آزادیوں کے لئے چیلنجز کے موضوع پر ایک سیمینار سے خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ سکیورٹی اور آئیڈیالوجی کے بیانیے نے سول سوسائٹی کے لئے جگہ تنگ کر دی ہے اور شہری آزادیوں پر قدغن لگا دی ہے اس لئے سیاسی پارٹیوں کو چاہیے کہ میثاق جمہوریت کی طرز پر بنیادی شہری آزادیوں کے لئے ایک چارٹر بنائیں۔

شہری آزادی کا مطلب آزادی اظہار اور کسی بھی ادارے یا تنظیم سے منسلک ہونے کی آزادی ہے۔ ان آزادیوں سے سول سوسائٹی کی تنظیمیں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں اور یہ بات یقینی بناتی ہیں کہ ریاست نے شہریوں سے جو معاہدہ کیا ہوا ہے اس سے احتراز نہیں کیا جا رہا لیکن صورتحال یہ ہے کہ سکیورٹی اور آئیڈیالوجی کے بیانیوں نے شہری آزادیوں پر قدغن لگائی ہوئی ہے۔

(جاری ہے)

اسی لئے بلوچستان، کے پی کے، فاٹا اور سندھ میں شہری تسلسل سے غائب ہو رہے ہیں، ریاستی ایجنسیاں قانون کے دائرے کے باہر کام کر رہی ہیں اور قانونی عمل کے لئے جگہ تنگ ہو رہی ہے اور نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے ملازمین کے بنیادی حقوق جھٹلائے جا رہے ہیں کیونکہ صورتحال کو درست کرنے کی کوئی بھی کوشش نیشنل سکیورٹی مفادات کے خلاف تصور کی جاتی ہے۔

اسی طرح ترقی پسندانہ قانون سازی جیسا کہ بچوں کی شادی کا ایکٹ، زبردستی مذہب کی تبدیلی کا قانون، زنا بالجبر اور غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قوانین، خواتین کے تحفظ کا ایکٹ اور دفاتر میں خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون سازی جیسے قوانین آئیڈیالوجی کے خلاف خطرہ کہہ کر ان کی مخالفت کی جاتی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو چاہیے کہ وہ شہری آزادیوں کے لئے کم سے کم نکات پر مشتمل ایک چارٹر بنائیں جیسا کہ ایک دہائی قبل میثاق جمہوریت کیا گیا تھا۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ بے عمل اور کمزور نیشنل کمیشن آن ہیومن رائٹس اور اطلاعات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے بھی شہری آزادیاں مفقود ہوئی ہیں۔ پاکستان نے انسانی حقوق کے 9 معاہدوں میں سے 7پر دستخط کرکے ان کی توثیق کی ہے اور ہم نے جی ایس پی کے تحت وعدہ کیا ہے کہ 27بین الاقوامی معاہدو ں پر دستخط کریں گے۔ ہمیں ریاست کو اس کی ذمہ داری پوری کرنے کے لئے دبائو ڈالتے رہنا پڑے گا تاکہ ریاست جن بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کرکے توثیق کر چکی ہے انہیں پورا کرے۔

اس ماہ کے اوائل میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے پاکستان سے کچھ سوالات پوچھے ہیں اور این سی ایچ آر کو تجویز دی ہے کہ وہ 2017ء کے اسٹریٹجک ایجنڈے کے لئے ایمانداری سے ان سوالات کے جوابات دے۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی ایجنسیوں کو قانون کے دائرے میں لانا چاہیے اور جس طرح تسلسل سے افراد غائب ہو رہے ہیں اور میڈیا اور انسانی حقوق کے محافظوں پر حملے ہو رہے ہیں انہیں ہر صورت میں ختم ہونا چاہیے۔

اس ضمن میں سینیٹ کی جانب سے 2014ء میں کی گئی سفارشات کے مطابق عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسداد تشدد کا قانون سینیٹ نے پہلے ہی پاس کیا ہوا ہے اور اطلاعات تک رسائی کا قانون بھی سینیٹ کی کمیٹی برائے اطلاعات اختیار کر چکی ہے اور اسے جلد سے جلد پارلیمنٹ سے منظور کرنا چاہیے۔ انہوں نے سول سوسائٹی کی تنظیموں کے خلاف پروپیگنڈے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ یہ تنظیمیں حق پر بنی ہیں اور کسی حکومت نے انہیںکام کرنے کی اجازت خیرات میں نہیں دی ہے۔

ریاست اور عوام ایک سماجی معاہدے کے تحت جڑے ہوئے ہیں اور یہ تنظیمیں اس وقت آواز بلند کرتی ہیں جب ریاست ان معاہدوں سے روگردانی کرتی ہے۔ یہ ان تنظیموں کا بنیادی حق ہے کہ وہ آئین کی کچھ شقوں پر اپنی آواز بلند کر سکیں۔ انہوں نے پوچھا کہ ججوں کی تقرری کے لئے 19ویں ترمیم پر کسی کو آواز اٹھانے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی اگر کسی نے غیر مسلم کو وزیراعظم یا صدر نہ بنانے کے خلاف آواز بلند کی تو اس میں کیا برائی ہے کیونکہ آئین تمام شہریوں کو برابر کے حقوق دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عوام اور ریاست کے درمیان اگر یہ معاہدہ ختم ہو جائے تو پھر یہ تباہی کا باعث ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرید یونین کے بارے کچھ قوانین پر سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نظرثانی کرے گی۔ انہوں نے سول سوسائٹی کی تنظیموں سے کہا کہ وہ اس کمیٹی کی مدد کریں۔

متعلقہ عنوان :