نیب قانو ن کے تحت اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہاہے ، اس سے ہٹ کر کچھ نہیں کرہاہے ،قانون بنانے اور اس میں ترمیم کااختیار پارلیمنٹ کے پا س ہے ، پلی بارگین کے قانون کے تحت چوروں اور لٹیروں سے لوٹی ہوئی رقوم واپس ملتی ہیں،کئی ممالک میں پلی بارگین کا قانون موجود ہے ،حتمی فیصلہ پلی بارگین پر عدالت کرتی ہے، مشتاق رئیسانی او رخالد لانگو کے فرنٹ مین سہیل مجید سے 3 ارب 25کروڑ روپے وصول کیے گئے ، یہ نیب کی تاریخ میں سب سے بڑی بر آمدگی ہے ، کرپشن کیس کی مجموعی 2ارب 25کروڑ روپے تھی،رینٹل پاور کیس میں سپریم کورٹ کے حکم کے تحت پلی بارگین ،رضاکارانہ واپسی کے قانو ن کے تحت 12ارب روپے سے واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کرائے گئے ، نیب اب تک لوٹی ہوئی دولت کے 280ارب روپے قومی خزانے میں جمع کراچکا ہے،ملزمان سے ریکور رقم سے نیب افسران کو حصہ ملنے کا تاثر غلط ہے،بر آمد تمام رقم قومی خزانے میں جمع کرادی جاتی ہے، ہم نے کرپشن کے خلاف عدم برداشت کی پالیسی بنارکھی ہے، شفافیت اور قانون کی عملداری یقینی بنانے کیلئے ادارے میں اصلاحات کیں

قومی احتساب بیورو نیب کے چیئرمین قمر زمان چوہدری کا خصوصی انٹرویو

پیر 26 دسمبر 2016 19:20

�سلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 26 دسمبر2016ء) قومی احتساب بیورو نیب کے چیئرمین قمر زمان چوہدری نے کہا ہے کہ پلی بارگین کے قانون کے تحت چوروں اور لٹیروں سے لوٹی ہوئی رقوم واپس ملتی ہیں،کئی ممالک میں پلی بارگین کا قانون موجود ہے،حتمی فیصلہ پلی بارگین پر عدالت کرتی ہے،بلوچستان کے سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی اور مشیرخزانہ خالد لانگو کے فرنٹ مین سہیل مجید شاہ سے نیب نے تین ارب 25کروڑ روپے وصول کیے ہیں،جو نیب کی تاریخ میں سب سے بڑی ریکوری ہے جبکہ کرپشن کیس کی مجموعی 2ارب 25کروڑ روپے تھی،رینٹل پاور منصوبوں میں سپریم کورٹ کے حکم کے تحت پلی بارگین ،رضاکارانہ واپسی کے قانو ن کے تحت 12ارب روپے رینٹل پاور منصوبوں سے واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کرائے گئے ہیں،نیب قانون کے تحت اپنا کام کر رہا ہے ،قانون پارلیمنٹ بناتی ہے اور اس میں ترمیم کا اختیار بھی پارلیمنٹ کے پاس ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ بات پیر کو آئی این پی کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں کی ۔ایک سوال پر چیئرمین نیب نے کہا کہ ادارے کے اندر اصلاحات متعارف کروائی گئی ہیں تاکہ شفافیت اور قانون کی عملداری کو یقینی بنایا جاسکے،کرپشن شکایت کی جانچ پڑتال کیلئے دو ماہ ،انکوائری کیلئے چارماہ اور تفتیش مکمل کرنے کیلئے بھی چار ماہ کا عرصہ مختص کیا گیا ہے،شکایت سے انکوائری اور انکوائری سے تفتیش تک کے عمل کو مکمل ہونے کیلئے دس ماہ کا عرصہ لگتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ عوامی شکایات پر بلاتفریق کارروائی کیلئے نیب کے تمام علاقائی دفاتر اور ہیڈ کوارٹرز میں شکایات سیل قائم ہیں،نیب کو سال2015کے مقابلے میں سال 2016میں جوشکایات موصول ہوئی ہیں ان کی تعداد گذشتہ سال سے دگنی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام نیب پر اعتما د کا اظہار کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پلڈاٹ اور ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل سمیت کئی بین الاقوامی اداروں نے نیب کی کرپشن کے خاتمے کی کاوشوں کو سراہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک پلی بارگین کا تعلق ہے تواحتساب آرڈیننس سیکشن 25بی کے تحت ہرملزم پلی بارگین کی درخواست دے سکتا ہے اور اس درخواست کا مکمل جائزہ لینے کے بعد اس پر قانونی رائے حاصل کی جاتی ہے اور پلی بارگین کی درخواست کی حتمی منظوری عدالت سے لی جاتی ہے،پلی بارگین کے تحت ملزم کے ذمہ جو بھی رقم بنتی ہے وہ تمام رقم اس سے لے کر قومی خزانے میں جمع کرائی جاتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ پلی بارگین کے تحت ملزم نہ صرف اپنے جرم کا اعتراف کرتا ہے بلکہ دس سال تک وہ ملکی سیاست میں حصہ لینے اور بنکوں سے قرضہ لینے کیلئے نااہل قرار پاتا ہے اور اگر ملزم سرکاری ملازم ہوتو پلی بارگین کی درخواست منظور ہوتے ہی اسے نوکری سے برخواست کردیا جاتا ہے،یہ بات غلط ہے کہ پلی بارگین سے نیب افسران کو حصہ ملتا ہے جو بھی رقم برآمد ہوتی ہے تمام کی تمام قومی خزانے میں جمع کرادی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پلی بارگین کا قانون صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ امریکہ ،برطانیہ،بھارت ،کینیڈا اور دنیا کے کئی ممالک میں بھی رائج ہے،اس قانون کا مقصد ملزمان سے نہ صرف لوٹی ہوئی رقم برآمد کرنا ہوتا ہے بلکہ ملکی وسائل اور وقت کے ضیاع کو بھی بچایا جاتا ہے۔انہوں نے کہاکہ دنیا کے کئی ممالک کے قوانین میں ملزمان سے رقوم کی براہ راست ریکوری کا طریقہ کار نافذالعمل ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج نیب لوٹی ہوئی دولت کے 280ارب روپے قومی خزانے میں جمع کراچکا ہے جبکہ مختلف منصوبوں سے متاثرہ لوگوں کو ان کی رقوم بھی واپس کی گئی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ڈبل شاہ سکینڈل میں 28ہزار899لوگوں نے اپنی خون پسینے کی جمع پونجی لٹا دی،اس سکینڈل میں نیب نے ساڑھے تین ارب روپے کی وصولی کی ہے اور ملزمان کی جائیدادیں اور قیمتی گاڑیاں ضبط کی گئی ہیں اور اب تک 11ہزار452متاثرین کو مکمل ادائیگی کی جاچکی ہے جبکہ 12ہزار363متاثرین کو جزوی رقم واپس کی گئی ہے جو پلی بارگین کے قانون کی ہی بدولت ریکور ہوئی تھی۔

انہوں نے کہاکہ آصف جاوید اس مولوی ابراہیم کے سکینڈل کے 18ہزار متاثرین ہیں اور سات ارب روپے کا یہ سکینڈل تھا ملزم کو عدالت سے 14سال کی سزا تو دلوادی ہے لیکن متاثرین کو ان کی لوٹی ہوئی رقم واپس نہیں ہوسکی۔اسی طرح مضاربہ سکینڈل کے مفتی احسان کو جیل بھجوایا گیا ہے لیکن آٹھ ارب روپے کی رقم ریکور نہیں ہورہی۔انہوں نے کہا کہ نیب قانون سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کر رہا اور ملک میں کرپشن کے خلاف عدم برداشت کی پالیسی بنارکھی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں چیئرمین نیب نے سابق مشیرخزانہ بلوچستان خالد لانگو کے فرنٹ میں سہیل مجید شاہ سے 96کروڑ روپے کی ریکوری کی گئی ہے جبکہ 11 جائیدادیں اس کے علاوہ ہیں جن میں ڈی ایچ اے اور کلفٹن کراچی کے گھر شامل ہیں جنہیں ضبط کیا گیاہے جبکہ ایک ایکسیئن رحمت خان ایک کروڑ روپیہ وصول کیا گیا ہے اور محکمہ کے اکائونٹنٹ سے تیس لاکھ روپے واپس لیے گئے ہیں،اسی طرح مشتاق رئیسانی سے 65کروڑ 32لاکھ روپے،ساڑھے تین کلو سونا برآمد کیا گیا تھا جبکہ دومرسڈیز گاڑیاں اور دو مکان بھی کرپشن کے پیسوں سے لیے گئے تھے جنہیں نیب نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ اس ساری کارروائی میں نیب بلوچستان کے افسران نے جرت مندی کا مظاہرہ کیا اور اپنی جان پر کھیل کر مچ اور خالق آباد جیسی تحصیلوں سے ریکارڈ حاصل کیا ۔انہوں نے کہا کہ خالد لانگو کے فرنٹ مین سیکشن 164کے تحت اقبالی بیانات میں خالد لانگو کے جرائم کا اعتراف کرچکے ہیں،خالد لانگو کا ریفرنس عدالت مین جائے گا اور اسے سزا ہوگی تاہم عدالتی پراسس طویل ہوتا ہے ۔

ایک سوال پر چیئرمین نیب نے کہا کہ پلی بارگین کے معاملے پر حتمی فیصلہ عدالت کرتی ہے اور کئی ممالک میں پلی بارگین کے قوانین موجود ہیں ۔انہوں نے ایک سوال پر کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ یہ 40ارب روپے کا فراڈ کیس تھا یہ 6ارب روپے کے ترقیاتی فنڈ میں سے 2ارب25کروڑ روپے کی کرپشن کی گئی تھی اور پلی بارگین کے نتیجے میں نیب نے 3ارب 25کروڑ روپے ریکور کیے ہیں اور اس طرح ایک ارب روپے اضافی وصول کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ نیب اب تک 285ارب روپے ریکور کراچکا ہے اور حالیہ تین سالوں میں 45ارب روپے ریکور کیے گئے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں چیئرمین نیب نے واضح کیا کہ نیب آرڈیننس ایک قانون ہے جس کے تحت نیب اپنے فرائض انجام دے رہا ہے قانون پارلیمنٹ بناتی ہے اور قانون میں ترمیم کا اختیار بھی پارلیمنٹ کے پاس ہے۔ایک اور سوال پر چیئرمین نیب نے کہاکہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں سپریم کورٹ نے دسمبر 2012میں رینٹل پاور منصوبوں سے متعلق ایک فیصلہ دیا تھا جس میں نیب کے قانون کے تحت وی آر اور پلی بارگین کے تحت اضافی طور پر دیئے گئے 12ارب روپے رینٹل پاور منصوبوں کے مالکان سے واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کرائے گئے ہیں اور عدالت کے حکم پر نیب نے یہ تما م کام کیا تھا۔…(خ م+ط س)