چین کی طرح پاکستان کے پیداواری شعبہ میں بھی ماہرین تعلیم و ٹیکنو کریٹس کی شمو لیت یقینی بنا نی چاہئے، صدر پاک چین جوائنٹ چیمبر آف کامرس وانگ زہائی

پیر 26 دسمبر 2016 17:51

لاہور۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 دسمبر2016ء) چین کی طرح پاکستان میں بھی مینوفیکچرنگ سیکٹر میں ماہرین تعلیم اور ٹیکنو کریٹس کی شمو لیت کو یقینی بنایا جانا چاہییے تاکہ تحقیق کی بنیا د پر زیادہ سے زیادہ جدید اور ویلیو ایڈ ڈ مصنوعات تیار کی جاسکیں ۔ان خیالات کا اظہارپاک چین جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر مسٹر وانگ زہائی نے جنان ٹیکنالوجی یونیورسٹی چائنہ سے آنے والے ایک وفدسے ملاقات کے دوران کیا ۔

پانچ رکنی مہمان وفد کی قیادت مسٹر زہینگ شو فینگ کر رہے تھے جبکہ دیگر ارکان میں مس شیائو جنگ، مسٹر زہینگ مِن اور مسٹر وانگ لی شامل تھے۔اجلاس کے دوران مسٹر وانگ زہائی نے کہا کہ مینوفیکچرنگ کے عمل کو عالمی معیار کے مطابق جدید بنانے کیلئے بین الاقوامی تعاون اور اشتراک نہائت اہمیت کا حامل ہے۔

(جاری ہے)

اس لئے انہوں نے کہا کہ چیمبر کے پلیٹ فارم سے عالمی ٹیکنوکریٹس کے ساتھ شراکت داری کے امکانات کو عملی جامہ پہانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ پاکستانی نوجوان جدید انداز سے کاروبار شروع کرنے کے قابل ہوسکیں ۔

انہوں نے امید کی کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے پاکستان کو علم کی بنیاد پر مبنی معیشت تشکیل دینے میں خاطر خواہ مدد مل سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے حصول کو یقینی بنانے کیلئے عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ کثیر تعداد میں سرمایہ کار پاکستان کا رخ کرسکیں۔ انہوں نے جنان ٹیکنالوجی یونیورسٹی کو پاکستان میںخصوصی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارکس کی تشکیل میں معاونت کی اپیل بھی کی۔

وفد کے سربراہ مسٹر زہینگ شو فینگ نے مسٹر وانگ کی تجاویز کو سراہااور آگاہ کیا کہ اُن کے وفد کا بنیادی مقصد پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مینوفیکچرنگ سیکٹر کے منصوبوں سے بڑھا کر نالیج شئیرنگ تک وسعت دیناے ہے۔اُنہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں مطلوبہ مقاصد کے حصول کو یقینی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ پاکستانی حکومت اپنے تعلیمی اداروں میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے عمل کو معیاری بنائے اور یونیورسٹیوں کے وسائل اور تحقیقی دائر کار کو وسعت دے۔

اُنہوں نے اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ پاکستان میں 1998 میں پی ایچ ڈی سکالرسز کی تعداد 300 تھی جو آج بڑھ کر تقریبا 3000تک پہنچ گئی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ بات بے شک حوصلہ افزاء ہے لیکن تحقیق اور مینوفیکچرنگ پلیٹ فارمز کے مابین ہم آہنگی نہ ہونے کی وجعہ سے پاکستان مینوفیکچرنگ سیکٹر میں خاطر خواہ جدت طرازی لانے سے قاصر نظر آتا ہے۔مہان وفد کے ارکان نے چین اور پاکستان کے درمیان ٹیکنوکریٹس اور تحقیقی ماہرین کے تبادلے کے حوالے سے مسٹر وانگ کی تجویز سے اتفاق رائے کیا اور کہا کہ دونوں ممالک کے ٹیکنو کریٹس اور تحقیقی ماہرین کو ساتھ مِلا کر ایسے منصوبے تشکیل دئیے جائیں جہاں فریش گریجویٹس اور محققین اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو مینوفیکچرنگ کے شعبہ کی ترقی اورجدت طرازی کیلئے کام کر سکیں۔