امریکی انتظامیہ نے بھارتی حکومت کی جانب سے جوہری ٹیکنالوجی سے متعلق بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزیوں کے باوجود بھارت کے جوہری پروگرام سے آنکھیں بند کررکھی ہیں، اس وقت بھی 9 بھارتی ادارے بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کے حوالے سے امریکی ایکسپورٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہیں لیکن یہ خلاف ورزیاں بھی اسے جوہری سپلائرز گروپ میں بھارت کی حمایت کرنے سے باز ٰنہ رکھ سکیں

دفاعی تجزیہ نگار ماریہ سلطان کا ایکسپورٹ کنٹرول نیوکلیئر سپلائرز گروپ اور ہائی ٹیکنالوجی کی تجارت کی حوصلہ شکنی کے موضوع پر اپنے خطاب

پیر 26 دسمبر 2016 17:30

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 دسمبر2016ء) دفاعی تجزیہ نگار ماریہ سلطان نے کہا ہے کہ امریکی انتظامیہ نے بھارتی حکومت کی جانب سے جوہری ٹیکنالوجی سے متعلق بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزیوں کے باوجود بھارت کے جوہری پروگرام سے آنکھیں بند کررکھی ہیں، اس وقت بھی 9 بھارتی ادارے بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کے حوالے سے امریکی ایکسپورٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہیں لیکن یہ خلاف ورزیاں بھی اسے جوہری سپلائرز گروپ میں بھارت کی حمایت کرنے سے باز ٰنہ رکھ سکیں۔

گذشتہ روزیہاں اسلام آباد میں ایکسپورٹ کنٹرول نیوکلیئر سپلائرز گروپ اور ہائی ٹیکنالوجی کی تجارت کی حوصلہ شکنی کے موضوع پر اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی جانب سے جینوا میں نیوکلئرسپلائرگروپ میں بھارت کی شمولیت سے متعلق غوروخوص سے یہ حقائق سامنے آئے ہیں کہ آج بھی 9 بھارتی ادارے امریکی کنٹرول لسٹ میں شامل ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے کسی قابل اعتماد کیس کی عدم موجودگی کے باوجود پاکستانی اداروں کے خلاف سوشل میڈیا، انٹیلی جنس رپورٹس جیسے غیرمصدقہ ذرائع بروئے کارلائے جا رہے ہیں تا کہ جوہری پروگرام کے حوالے سے پاکستان کے اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا اور خدشات کو ظاہر کیا جا سکے۔ ماریہ سلطان نے امریکی انتظامیہ کی جوہری پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ چھان بین کے حوالے سے پاکستانی اداروں کی فہرست اور اس حوالے سے ممکنہ طور پر بڑھتے ہوئے خدشات اور شکوک و شبہات کے پیش نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ اس امور کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی جوہری پروگرام کے حوالے سے جو غیر مصدقہ ذرائع استعمال کیے جا رہے ہیں ان میں سوشل میڈیا، کمرشل ویب سائٹس، انٹیلی جنس رپورٹس اور وکی لیکس کو بروئے کار لا کر رپورٹس تیار کی جاتی ہیں جس کا مقصد پاکستانی اداروں کے حوالے سے عوامی سطح پر شکوک و شبہات اور خدشات پیدا کرنا ہے جس سے پاکستان کا نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت کا مسئلہ مزید پیچیدہ ہو جائے۔

ان رپورٹس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ پاکستان کے ساتھ باہمی تعلقات کو خراب کیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی غیرمصدقہ ذرائع کی بنیاد پر پاکستان کے جوہری پروگرام سے متعلق رپورٹس پر امریکی کمپنیوں کی جانب سے خدشات کا اظہار کوئی معیار نہیں تاہم الفاء رپورٹس کے پراجیکٹس میں متذکرہ امریکی فہرست میں پاکستانی کمپنیوں کی شمولیت سے پاکستان کا دفاع جوہری صلاحیت اور صنعتی تجارت پر اثر پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ الفاء رپورٹس کے پراجیکٹس میں پاکستانی کمپنیوں پر حملہ کرکے پاکستان کی شہ رگ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب اقتدار سے رخصت ہوتی اوباما انتظامیہ نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو پیچیدہ بنا رہی ہے۔