سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی 9ویں برسی آج منائی جائے گی ،مرکزی تقریب لاڑکانہ میں ہوگی ،بے نظیر بھٹو کی جائے شہادت پر بھی پیپلز پارٹی کے دھڑوں کی الگ الگ تقریبات منعقد ہوں گی ،قرآن خوانی و خصوصی دعا اور لنگر کا بھی اہتما م بھی ہو گا

بے نظیر بھٹوکو27 دسمبر2007کو لیاقت باغ میںخود کش بم دھماکے میں شہید کر دیا گیا تھا

پیر 26 دسمبر 2016 17:11

راولپنڈی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 دسمبر2016ء) سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو (مرحومہ)کی 9ویں برسی آج (بروز منگل)منائی جائے گی اس ضمن میں مرکزی تقریب لاڑکانہ ہو گی جبکہ راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو کی جائے شہادت پر بھی پیپلز پارٹی کے دھڑوں کی الگ الگ تقریبات منعقد ہوں گی جن میںقرآن خوانی اور خصوصی دعاکے ساتھ لنگرکا اہتمام کیا جائے گا تاہم سانحہ لیاقت باغ کو 9سال گزرنے کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو اور ان کے 23جیالوںکا خون آج بھی انصاف کا متلاشی ہے سانحہ لیاقت باغ کے بعد سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو (مرحومہ)کے شوہر آصف علی زرداری کے 5سالہ دور اقتدار کے بعد موجودہ وزیر اعظم نواز شریف کے اقتدار کو بھی نصف سے زائدوقت گزر جانے اورسانحہ لیاقت باغ کے ٹرائل کے دوران انسداد دہشت گردی کے 6جج تبدیل اور350سے زائدتاریخ پیشیاں (تاریخ سماعت)ہونے کے باوجود سانحہ لیاقت باغ منطقی انجام کو نہ پہنچ سکا قومی نوعیت کے اس سنگین مقدمے کے ٹرائل میں سست روی ،فیصلے میں تاخیر ،انوسٹی گیشن اورتفتیشی ٹیموں میں بار بار ردو بدل کو ٹرائل اور فیصلے میں بڑی رکاوٹ قرار دیا جاتاہے یہی وجہ ہے کہ مقدمے میں اب تک 8چالان عدالت میں پیش ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے جبکہ3 مرتبہ فرد جرم عائد ہو چکی ہے بے نظیر بھٹوکو27 دسمبر2007کو اس وقت خود کش بم دھماکے کی نذر کر دیا گیا تھا جب وہ انتخابی مہم کے حوالے سے راولپنڈی کے تاریخی لیاقت باغ میں جلسہ عام کے اختتام پر واپس روانہ ہو رہی تھیں ابتدائی طور پر ایس ایچ او تھانہ سٹی کاشف ریاض کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیاتھا تاہم بعد ازاں اس میں تحریک طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود کو ملزم نامزد کرنے کے بعد مرحلہ وار سابق صدر پرویز مشرف ،سابق سی پی او راولپنڈی سعود عزیز اور سابق ایس پی راول ڈویژن خرم شہزاد سمیت 15افراد کو بطورملزم نامزدکیا گیا تھا جن میں سے پرویز مشرف ، سعود عزیز اور خرم شہزادپر مشتمل 3ملزمان ضمانت پر ہیں جبکہ محمد رفاقت ،حسنین گل ،شیر زمان ،رشید احمد اور اعتزاز شاہ پر مشتمل 5ملزمان گرفتار ہیں اور بیت اللہ محسود ،عباد الرحمان عرف نعمان عرف عثمان،عبداللہ عرف صدام،فیض محمد، اکرام اللہ ،نصراللہ ،نادر عرف قاری اسماعیل پر مشتمل7ملزمان تاحال مفرور ہیں جن کے بارے میں یہ بھی اطلاعات ہیں کہ یہ ساتوں مختلف مواقع پر ہونے والے فوجی آپریشنز میں مارے جا چکے ہیں اس مقدمہ میں استغاثہ کی جانب سے 139گواہوں کی فہرست عدالت میں پیش کی گئی تھی جبکہ بعد ازاں ان گواہوں کی تعداد کم کر کے اسے 55تک لایا گیا اگرچہ9سال کے دوران55 گواہوں کے بیان اور ان پر وکلا کی جرح بھی مکمل ہو چکی ہے اور اب ضابطہ فوجداری کی دفعہ342کے تحت ملزمان کے بیان ریکارڈ کرنے کا عمل جاری ہے تاہم اس موقع پر بھی پراسیکوشن نے مقدمہ میں نامزد سابق صدر پرویز مشرف کی عدالت طلبی کے لئے ایک درخواست دائر کر رکھی ہے مقدمہ کے ٹرائل کا اگر جائزہ لیا جائے ٹرائل میں تاخیر کاایک سبب متعدد مواقع پر فریقین کے وکلا کی جانب سے دائر متفرق درخواستوں ،مقدمہ کے ایک اہم ترین گواہ برطانوی صحافی مارک سیگل کے بیان ،گاہے بگاہے جاری ہونے والے عدالتی احکامات پر عملدرآمد اور سمن کی تعمیل میں سست روی اورمتعدد تاریخوں پر فریقین کے وکلا کی عدم حاضری کو قرار دیا جا سکتا ہے یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ٹرائل کے دوران اب تک رانا نثار،پرویز علی شاہ،شاہد رفیق ،چوہدری حبیب اللہ، طارق عباسی اور پرویز اسماعیل جوئیہ پر مشتمل6جج تبدیل ہو چکے ہیں اور اب یہ کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج رائے ایوب خان مارتھ کے روبرو زیر سماعت ہے اور یہ ٹرائل اب اڈیالہ جیل میں ہو رہا ہے سانحہ کے ٹرائل کے دوران ایک سانحہ یہ ہوا کہ اس کیس میں ایف آئی اے کی پیروی کرنے والے وکیل چوہدری ذوالفقار کوسال2013 فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیاتھا انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت وقوعہ کے بعد14 دن کے اندر چالان پیش کرنا اور 3 ماہ میں سمری ٹرائل مکمل کرنا لازم ہے لیکن جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نی27 دسمبر کو پیش آنے والے سانحہ لیاقت باغ کا پہلا چالان فروری 2008کو عدالت میںپیش کیا جس میں طالبان رہنمابیت اللہ محسودپر قتل کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کرنے کے ساتھ رشید احمد، اعتزاز شاہ ، شیر زمان، حسنین گل اورمحمد رفاقت کوبھی ملزم نامزد کیا گیاتھابعد ازاں وفاقی حکومت کی ہدایت پرمقدمے کی ازسر نو تحقیقات فیڈرل انویسٹی گیشن اتھارٹی (ایف آئی ای) کے حوالے کر دی گئی جس نے 22 اپریل 2011 تک انسداددہشت گردی کی عدالت میں5 نامکمل چالان داخل کروائے ایف آئی اے کو تحقیقات سونپنے اور اس دوران سکاٹ لینڈ یارڈ کے دورہ پاکستان اورسانحہ لیاقت باغ کی تحقیقات کے بعد عدالت میں داخل کی گئی رپورٹ میں سابق صدر پرویز مشرف کو بھی ملزم نامزد کیا گیا لیکن حکومتی تحقیقاتی ادارے بے نظیر قتل کیس میںسا بق صدر پرویز مشرف کے ساتھ پولیس افسران سعود عزیز، خرم شہزاد اور طالبان عناصر کا بالواسطہ اور بلاواسطہ کوئی تعلق ثابت نہ کر سکے اس کیس میں اب تک میںپی ٹی سی ایل کے ملازمین سر فر از ، سعید قر یشی، بے نظیر بھٹو کے ز یر استعما ل بلیک بیر ی مو بائل فو ن سے ای میل اور ایس ایم ایس کا ڈیٹا حا صل کر نے والے ایکسپر ٹ نعما ن ا شر ف بو د لہ ،گر فتا ر ملز م ر فا قت کو اپنے گھر میں ٹھہر انے وا لے ما لک مکا ن غلا م عبا س، ڈی ایس پی اشتیا ق شا ہ ، ایف آ ئی کا نسٹیبل کاشف بشیر، سب انسپکٹر ار شد کلیم ،وار د ٹیلی کا م کے عثما ن مفتو ن اور ملزما ن ر فا قت ،حسنین اور اعتز از شا ہ کا د فعہ 164کے تحت بیان قلمبند کیا جا چکا ہے ،جبکہ پی ٹی سی ایل کے ڈا ئر یکٹر فیر و ز عا لم نے طا لبا ن کما نڈ ر بیت اللہ محسو د اور ایک مبینہ منصوبہ کارکے ما بین ہو نیوا لی ایک منٹ13سیکنڈ کی گفتگو پر مبنی ر یکا ر ڈ عدا لت میں پیش کیا جس میں گفتگو کر نیوا لے افر اد نے بے نظیر بھٹو پر خو د کش حملہ کے بعد ایک دوسر ے کو مبا ر ک با د پیش کی تھی سانحہ لیاقت باغ کے ٹرائل کے دوران عدالت نے وزارت داخلہ کے ترجمان بریگیڈئر(ر)جاوید اقبال چیمہ ،نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل کے ڈی جی جاوید اقبال لودھی اورسیکرٹری داخلہ کمال شاہ کو نوٹس جاری کر کے بطور گواہ طلب کیا تھا یاد رہے کہ 27 دسمبر 2007 کو 5 بجکر 11 منٹ پر دھماکہ ہوا جبکہ 6 بجکر 42 منٹ پر جائے وقوعہ کو دھو دیا گیا اور اس کے 2 گھنٹے بعد تھانہ سٹی کے ایس ایچ او کاشف ریاض کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کی گئی22دسمبر 2010کوسابق سی پی او سعود عزیز اور سابق ایس پی راول ڈویژن خرم شہزاد کی ضمانت مسترد کر کے دونوں پولیس افسران کو بے نظیر بھٹو قتل کیس کے جیل ٹرائل کے دوران اڈیالہ جیل سے گرفتار کیا گیاتھا23اپریل2011کوبرطانوی حکومت کی طرف سے سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو قتل کیس میںمرکزی ملزم کے طور پر نامزدسابق صدر پرویز مشرف کی پاکستان حوالگی کے لئے باقاعدہ انکار کے بعدایف آئی اے کی درخواست پر30مئی2011 کوانسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر3کے جج رانا نثار احمدنے پرویز مشرف کے خلاف ضابطہ فوجداری کی دفعہ 87,88کے تحت کاروائی کرتے ہوئے انہیں باضابطہ طور پر اشتہاری قرار دیاتھا 11جون2011 کوانسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر3 کے جج رانا نثار احمد نے پرویز مشرف کوباضابطہ طور پر اشتہاری قرار دینے کے بعد ان کے دائمی وارنٹ جاری کرکے انکی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی تفصیلات بھی طلب کی تھیںیہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس کیس میں سیکو ر ٹی فور سسز کے آ پر یشن کے دوران ما رے جا نے والے کا لعد م تحر یک طا لبا ن پا کستان کے کما نڈ ر بیت اللہ محسو د سمیت 14ملز ما ن کو نا مز د کیا گیا جس میں سے 5 ملز ما ن ر فا قت ، حسنین گل ، ر شید ا حمد ، شیر زما ن ، اور ا عتز از شا ہ پہلے سے گر فتا ر ہیں جبکہ سا بق سی پی او راو لپنڈ ی سعو د عز یز اور سا بق ایس پی خر م شہز ادگر فتا ر ی کے بعد ضما نت پر ر ہاہیں 15اکتوبر2011 انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر1کے جج شاہد رفیق کے روبرو سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو قتل کیس میں نامزد سابق صدر پرویز مشرف کے شریک ملزمان سابق سی پی او راولپنڈی سعود عزیزاورایس پی راول ٹائون خرم شہزاد کی جانب سے بریت کی درخواست خارج کر کے ساتوں ملزمان پر فرد جرم عائدکی تھی لیاقت باغ کے المناک سانحہ میںنہ صرف قومی و بین الاقوامی شخصیت کی حامل ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو جان کی بازی ہار گئی تھیں بلکہ ان کے ساتھ پیپلز پارٹی کی23کارکنوں نے بھی جان کے نذرانے پیش کئے تھے جن میں سے اکثر اپنے گھر کے واحد کفیل تھے جو آج تک نہ صرف پیپلز پارٹی میں اپنے دکھوں کا مداوا ڈھونڈ رہے ہیںبلکہ9سال سے انصاف کے متلاشی ہیں۔