حصول علم قومی فرض اور ذمہ داری ، غفلت برتننا ایک قومی جرم سے کم نہیں ہوگا، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ

طلبہ حصول علم کے ضمن میں ایمانداری، محنت اور لگن کو اپنا شعار بنائیں ، سابق وزیر اعلیٰ کی بی ایس او کے وفد سے بات چیت

بدھ 21 دسمبر 2016 20:43

تربت(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 دسمبر2016ء) بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچ نیشنل ازم کو ترقی پسندانہ فکر کے سانچے میں ڈالنے، اسکے ابھٴْار ، ترقی و ترویج اور عوامی جمہوری جدوجہد کو منظم کرنے کے ضمن میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناہزیشن کا کردار قومی، تاریخی اور قابل فخر ہے، بی ایس او ترقی پسندانہ نیشنل ازم کے فکر کا گھونسلا ہے۔

اور روشن افکار کے اس سیاسی گھونسلا کی دیکھ بھال ہماری قومی ذمہ داریوں میں سے ایک عظیم ذمہ داری ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناہزیشن (پجار) تربت زون کے عہدیداران اور کارکنان کے ایک وفد سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پارٹی کے ضلعی صدر معمد طاہر بلوچ، چیرمین حلیم بلوچ، معمد جان دشتی اور مشکور انور بھی موجود تھے، بی ایس او کے وفد کی قیادت زونل رہمناء امجد بلوچ اور عابد عمر بلوچ کررہے تھے۔

(جاری ہے)

سابق وزیر اعلٰی نے طالب علم رہنماوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حصول علم انکی قومی فرض اور ذمہ داری ہے، اس قومی فرض سے غفلت برتننا ایک قومی جرم سے کم نہیں ہوگا، لہذا وہ نہ صرف خود ذاتی طور پر حصول علم کے ضمن میں ایمانداری، محنت اور لگن کو اپنا شعار بناہیں بلکہ اپنے تنظیم کے اندر اور اپنے اپنے تعلیمی ادارں کے اندر اجتماعی طور پر حصول علم کے اس قومی فرض و ذمہ داری کی تبلیغ کرتے ہو? دیگر طالب علموں کو اس جانب راغب کرایں، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ علم و شعور ، جدید ٹکینالوجی اور تعلیمی انقلاب کا یہ صدی دراصل مقابلہ اور فٹھسٹ کی صدی ہے، کوء فرد یا کوء قوم آج کے جدید علمی، ساہنسی اور معاشی تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ کرتے ہو? فٹ نہیں ہوگا تو وہ فنا ہوجاہیگا، انہوں نے کہا کہ جسطرح طویل اور بھاری بھرکم جسامت رکھنے کے باوجود ڈاہنوسار وقت و حالات کے موسمی تبدیلیوں کے مطابق خود کو ڈھال نہ سکے جسکے نتیجہ میں وہ فنا ہوگی جبکہ چھوٹی سی مچھر لاکھوں سال گزرنے کے باوجود آج بھی باقی ہے، سابق وزیراعلٰی نے طالب علموں کے وفد پر زور دیتے ہو? کہا کہ علم و شعور اور ٹکینالوجی کے اس صدی میں بلوچ قومی بقاء اور شناخت کو اگر کسی ہھتیار سے تحفظ دیا جاسکتا ہے تو وہ ہھتیار علم، کتاب، قلم کا ہی ہھتیار ہے لہذا حصول علم میں ایمانداری ، سنجیدگی، معنت اورلگن ہی سب سے بڑی قوم پرستی ہوگی۔

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ انکو فخر ہے کہ انہوں نے بلوچستان پبلک سروس کمیشن میں پوسٹوں کی نیلامی کرنے والے بلوچستان دشمن مافیا کا قلع قمع کرکے ادارہ کو ری شیپ کرایا اور اصلاح کراتے ہو غریب کے بچے کو قابلیت و صلاحیت کی بنیاد پر بیورکریسی میں داخل کرانے کی راہیں کھول دیے، انہوں نے کہا کہ ایک سازش کے تحت بلوچستان اور خاص کر مکران میں مذہبی انتہاپسندی کی تخم ریزی کیجارہی ہے جو کہ یہاں پر ترقی پسندانہ نیشنل ازم کے فکر اور عوامی جمہوری سیاسی کلچر اور جدوجہد کی بیخ کنی کے ساتھ ساتھ لبرل بلوچ معاشرہ کیروشن چہرے کو مسخ کرنے کی منظم منصوبہ بندی ہے، انہوں نے اس صورتحال کو آلارمنگ قرار دیتے ہئے چھلے دس سالوں سے زاہد کے عرصے میں بلوچ معاشرہ میں سیاسی عمل پر بزور شمشیر قدغن لگانے کو اسکی بنیادی وجہ قرار دیا اور کہا کہ بلوچ سیاسی قیادت و دانشوروں کی قومی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس آلارمنگ صورتحال پر توجہ مبذول کرتے ہو علمی و دانشوارانہ بحث کا آغاز کریں اور مشترکہ قومی سیاسی حکمت عملی کے ذریعے اس بھیانک اڑدھا کا مقابلہ کرنے کے کیے راہیں تلاش کریں۔