عدالتی احکامات نظر انداز، حکومت نے خفیہ ایجنسیز کے خفیہ فنڈز کا آڈٹ روکنے کیلئے قانون میں ترمیم کر دی ، آڈٹ نہ ہو سکا ، آڈیٹر جنرل کا پی اے سی میں انکشاف

ترمیم کے بعد آئی ایس آئی اور آئی بی کے خفیہ فنڈز کا آڈٹ نہیں کیا جا سکتا، اٹارنی جنرل خفیہ فنڈز آڈٹ بارے میں سپریم کورٹ میں توہین عدالت کا مقدمہ قائم کیا جائے،پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی متفقہ رائے

منگل 20 دسمبر 2016 18:42

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 دسمبر2016ء) آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف حکومت نے سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے برعکس خفیہ ایجنسیوں کے خفیہ فنڈز کا آڈٹ روکنے کے لئے قانون میں ترمیم کر دی ہے جس کے نتیجے میںخفیہ فنڈز کے اخراجات کا آڈٹ نہیں ہو سکا۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان نے بھی رولنگ دی ہے کہ ترمیم کے بعد آئی ایس آئی اور آئی بی کے خفیہ فنڈز کا آڈٹ نہیں کیا جا سکتا۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے متفقہ طورپر رائے دی ہے کہ خفیہ فنڈز کے آڈٹ کے بارے میں سپریم کورٹ میں توہین عدالت کا مقدمہ قائم کیا جائے۔ آڈیٹر جنرل رانا امین نے دو ٹوک الفاظ میں عزم ظاہر کیا ہے کہ خفیہ فنڈز کے اخراجات کے بارے میں آئی ایس آئی اور آئی بی کے مالی معاملات کا آڈٹ ہونا چاہیے ۔

(جاری ہے)

یہ ادارے قومی ہیں تو ہم کوئی باہر سے نہیں آئے۔ پی اے سی نے کہا ہم قومی خزانہ کے کسٹوڈین ہیں کسی ادارے کے ساتھ امتیازی رویہ اختیار نہیں کرنے دیں گے۔

پی اے سی نے ہدایت کی ہے کہ عطاء اللہ مینگل کو 12کروڑ روپے ادا کر کے 137ایکڑ زمین کا انتقال لیا جائے جبکہ نیشنل بینک کے مالی معاملات کا آڈٹ کرانے کے لئے سپریم کورٹ میں مقدمہ قائم کیا جائے ۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس سید خورشید شاہ کی صدارت میں ہوا جس میں محمود خان اچکزئی، نوید قمر، شفقت محمود، عذرا پلیجو ، نوید قمر ع دیگر نے شرکت کی۔

ا جلاس میں وزارت داخلہ اور پورٹ قاسم کے مالی حسابات کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ قومی شناختی کارڈ کے اجراء کے لئے نادرا نے ایک ارب روپے طلب کر لئے ہیں۔ پی اے سی نے کہا 450ارب کی ریکوری کے لئے عدالت میں مقدمات کے فوری فیصلے کرائے جائیں۔ سید خورشید شاہ نے قومی اداروں سے کہا ہے کہ اچھے وکیل کے ذریعے عدالتوں میں پھنسی ہوئی اربوں روپے کی دولت واپس لائیں اگر مقدمات سست روی کا شکار رہے تو کرپٹ مافیا ملک کے خزانے لوٹ کر کھا جائیں گے اور ملک کا پہیہ جام ہو جائے گا اچھے وکیل کرنے کے لئے بھی نئی پالیسی بنائی جائے۔

حکومت کے ہر ادارے کو از خود اچھا وکیل کرنے کا اختیار ملنا چاہیئے۔ عدالتوں میں 450ارب روپے کے مقدمات عدالتوں میں موجود ہیں جو ملک کے جی ڈی پی کا 10فیصد ہے حکومت 450ارب روپے کی وصولی کے لئے اقدامات کرے۔ چیئر مین نے یہ ہدایت پورٹ قاسم کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیتے ہوئے دی جب پی اے سیکو بتایا گیا کہ پورٹ قاسم کے 20کروڑ کی ریکوری کا مقدمہ گزشتہ 9سالوں سے عدالت میں زیر سماعت ہے۔

محمود خان اچکزئی نے کہا کہ سرکاری حکام کی ملی بھگت کے بغیر کرپشن ہو ہی نہیں سکتی ۔ ایکسپوس کمپنی کو ٹھیکہ بابر غوری نے دیا تھا ۔ اور اس کمپنی کے مالک کا نام شاہد فیروز ہے۔ اس کمپنی کو مزید 100ایکڑ بھی لیز پر دیئے گئے تھے۔اچکزئی نے کہا کہ افسران لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لئے لمبی نیند سوئے ہوئے ہیں۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ پورٹ قاسم حکام نے انڈسٹریل پارک کے نام پر 500ایکڑ زمین کراچی کی کمپنی کو دی تھی جس نے کرایہ بھی نہیں دیا یہ زمین احمد میان نور نامی شخص کو الاٹ ہوئی تھی۔

خورشید شاہ نے کہا کہ ہمیں پتا ہے لیکن حقائق نہیں بتا سکتے کیونکہ ہر چیز کا ریکارڈ ہو رہی ہے۔ شفقت محمود نے کہا کہ جو کہنا ہے کہہ دو تاکہ قوم کو پتہ چل جائے۔ پورٹ قاسم اتھارٹی کے حکام نے کہا کہ ہم سے کچھ نہ اگلوائیں حقائق کا ادراک سب لوگوں کو ہے۔ پی اے سی کو بتایا گیا کہ سوات آپریشن کے دوران مالاکنڈ ڈویژن میں تباہ شدہ مکانات کی مرمت اور بے گھر افراد کی بحالی کے لئے جاری 10ملین کا چیک سٹیٹ بینک نے کیش بھی نہیں ہونے دیا جبکہ پیپلز پارٹی دور میں نادرا لوگوں کو فری شناختی کارڈ کے اجرا کے نام پر کروڑوں روپے وزارت خزانہ سے ایک ارب روپے طلب کئے تھے۔

حکومت نے وعدہ بھی کیا تھا لیکن اس وقت کے وزیر خزانہ نے ایک ارب روپے دینے سے انکار کر دیا تھا اس وقت وزیر خزانہ سینیٹر سلیم مانڈی والا تھے جبکہ وفاقی حکومت نے نادرا کو اب بھی اڑھائی ارب روپے ادا کرنے تھے ۔نادرا کے ملازمین کو مستقل کرنے سے نادرا کے مالی حالات کافی خراب ہو گئے ہیں۔ شفقت محمود کے سوال کے جواب میں سیکرٹری داخلہ نے کہا افغانیوں کو شناختی کارڈ اراکین پارلیمنٹ کی تصدیق پر دیئے جانے کا امکان ہے۔

چیئرمین نادرا نے کہا کہ تجویز ہے کہ پارلیمنٹیرین کو حق دیا جا رہا ہے کہ وہ افغانیوں کے شناختی کارڈز کے فارمز کی تصدیق کر دیں تو شناختی کارڈ جاری ہو جائے گا۔ ڈاکٹر عذرا نے اس تجویز کی شدید مخالفت کی اور کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کو پولیس کا کردار نہیں ملنا چاہیئے سیاسی افراد کو یہ ذمہ داری نہ دیں،سیاسی قوتوں پر عدالتی دباؤ آئے گا۔ سیکرٹری داخلہ نے کہا یہ پالیسی بنانے کا امکان نہیں ہے۔

وزارت داخلہ نے اس تجویز کو مسترد کر رکھا ہے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ دنیا میں کہیں نہیں ہوا کہ کسی شہری کا شناختی کارڈ ختم کرنے پر اس کی تصدیق کی جائے شناختی کارڈ لوگوں کا بنیادی حق ہے۔ 2لاکھ پشتونوں کے پاس شناختی کارڈ نہیں لاکھوں لوگ سے یہ حق چھین لیا گیا ہے ہم احتجاج کر رہے ہیں اور یہ حق صدر کو بھی نہیں کہ وہ ہماری شناخت ختم کر دے۔

پورے ملک میں پگڑی اور داڑھی والے پشتونوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔شیخ جمیل اصغر نے بھی نادرا کے شہریوں سے ناروا سلوک پر شدید احتجاج کیا، جعلی شناختی کارڈ شربت گلہ کو بنا کر دیا گیا، پھر جیل میں ڈال دیا گیا یہ کہاں کا انصاف ہے، سیکرٹری داخلہ نے کہا افغان مہاجرین جو 3ملین سے زیادہ تھے نے سرکاری حکام سے ملی بھگت کرکے شناختی کارڈ بنا رکھے تھے جس سے یہ عام مسائل جنم لے رہے ہیں، نوید قمر نے کہا بطور وزیر خزانہ ان کا تجربہ ہے کہ بجٹ پیش کرتے وقت اعدادوشمار میں ھیر پھیر کی جاتی ہے اور بجٹ خسارہ کو کم دکھایا جاتا ہے جو ایک غلط اقدام ہے، شفقت محمود نے کہا کہ یہ روایت ختم ہونی چاہیے، وزارت داخلہ کے آڈٹ اعتراضات میں بتایا گیا کہ پاسپورٹفیس کی ادائیگی کے وقت نیشنل بینک شہریون سے غیر قانونی طریقہ سے 43کروڑ روپے وصول کر چکا ہے پر شہری بینک کو فی پاسپورٹ 25روپے ادا کرتا ہے جو کہ غیر قانونی اقدام قرار دیا گیا ہے، سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ 25روپے ختم نہیں کئے جا سکتے یہ سروسز چارجز ہیں تاہم اب اس کی اجازت متعلقہ حکام سے لینے کا مرحلہ جاری ہے، خورشید شاہ نے کہا جب وزارت داخلہ خود قوانین کی خلاف ورزی کرے گی تو استدعا برائے انصاف کسی سے کی جائے گی، یہ عوام کے ساتھ زیادتی ہے، نیشنل بینک کو عوام کو لوٹنے کی اجازت نہیں دینگے، سرکاری بینک نے تو فری سروس فراہم کرے، پاسپورٹ فیس اڑھائی ہزار سے بڑھاکر پانچ ہزار کر دی گئی یہ فیس بھی قومی خزانہ میں جارہی ہے، ڈائریکٹر جنل پاسپورٹ عثمان باجوہ نے کہا نیشنل بینک کے علاوہ دیگر بینکوں کو بھی پاسپورٹ فیس وصول کا اختیار دینے کی تجویز زیر غور ہے، گزشتہ سال 4.43ملین پاسپورٹ بنائے تھے جس سی22ارب 20کروڑ وصول ہوئے تھے اب حکومت کی ہدایت پر ہر ضلع میں پاسپورٹ آفس بنائیں گے جبکہ 30ملکوں میں پاسپورٹ سنٹر قائم کیے گئے ہیں پی اے سی نے ہدایت کی کہ پاسپورٹ فیس وصولی کا اختیار تمام بڑے بینکوں کو دیا جائے تاکہ عوام کو آسانی مل سکے، فیس اضافے کا حکم سابق سیکرٹری داخلہ کمال شاہ نے دیا تھا جس سے پوچھ گچھ کی جائے اور ان سے جواب طلب کیا جائے، آڈٹ حکام نے بتایا کہ وزارت داخلہ نے سیکرٹ سروس فنڈ کے تحت405ملین روپے اخراجات کئے ہیں آڈیٹر جنرل نے کہا اب سیکرٹ سروس فنڈ خفیہ ایجنسیاں کے پاس ہے جبکہ تمام وزارتوں سے ختم کر دیا گیا ہے، تاہم سیکرٹ فنڈز کا آڈٹ نہیں کیا جاتا اور نہ ریکارڈ فراہم کیا جاتا ہے،2014میں پارلیمنٹ نے ترمیم کی ہے کہ اگر حکومت مطمئن ہے تو سیکرٹ سروس فنڈز کا آڈٹ نہیں ہوگا لیکن سپریم کورٹ نے کہا کے آڈٹ ہونا چاہئے، ہمیں آڈٹ نہیں کرنے دیا گیا، اٹارنی جنرل نے بھی رولنگ دی ہے کہ سیکرٹ سروس فنڈز کا آڈٹ نہیں کر سکتے اور عدالت عظمیٰ نے متعلقہ ترمیم ختم نہیں کی۔

آئی بی نے آڈٹ کرا لیا ہے ہم پھر حکومت کے پاس جائیں گے کہ عدالت کے حکم کے مطابق ترمیم ختم کی جائے جس پر پی اے سی نے کہا حکومت کے پاس جانے کی بجائے عدالت عظمیٰ میں توھین عدالت کا مقدمہ کیا جائے۔ شفقت محمود نے کہا میکنزم ضروری ہونا چاہئے کہ خفیہ فنڈز کے اخراجات کو چیک کیا جائے، آڈیٹر جنرل نے کہا عدالت نے تو آڈٹ کا حکم دیا ہے لیکن اٹارنی جنرل نے واضح رولنگ دی ہے، انہوں نے کہا کے آئی ایس آئی ہو یا آئی بی خفیہ فنڈز کے آڈٹ ہونا ضروری ہے اس حوالے سے آڈٹ حکام وزارت خزانہ کے پاس جائیں۔

کیونکہ ہم بھی کوئی بیرونی دنیا سے نہیں آئے ہیں، اچکزئی نے کہا پارلیمنٹ کو کردار ادا کرنا ہوگا، محمود خان اچکزئی نے کہا پی اے سی بھی اپنے واضح رائے دے کہ سیکرٹ فنڈز کا آڈٹ ہونا چاہئے، شفقت محمود نے کہا کہ ہم قومی دولت کے ہم کسٹوڈین ہیں، آڈٹ رپورٹکا علم صرف آڈیٹر جنرل اور متعلقہ حکام کو ہے، پی اے سی کے چیئرمین نے کہا معاملہ سپریم کورٹ میں جانا چاہئے، آڈیٹر جنرل نے کہا ڈرنے کی بات نہیں کھل کر رائے دی جائے یہ تمام ادارے ہمارے اپنے ہیںِ پی اے سی نے رائے دی ہے کہ تمام قومی اداروں کے مالی معاملات کا آڈٹ کرانا چاہئے، آڈیٹر جنرل نے کہا سندھ ہائی کورٹ کے 2012میں فیصلہ دیا تھا کے نیشنل بینک کا آڈٹ نہ کیا جائے جس وجہ سے نشینل بینک اپنے مالی معاملات کا آڈٹ کرانے پر راضی نہیں آڈیٹر جنرل نے کہا نیشنل بینک کے خلاف بھی ہم سپریم کورٹ میں توہین عدالت کا مقدمہ دائر کریں گے، نیشنل بینک کے علاوہ باقی تمام بینکوں کا آڈٹ کرایا جاتا ہے، پی اے سی نے ہدایت کی ہے کہ حکومت عطاء اللہ مینگل کو12کروڑ روپے ادا کرکے انکی زمین بلوچستان وڑھ سے سرکاری محکمہ فرنیئر کور کے نام مستقل کرا دیا جائی137 ایکٹر زمین عطاء اللہ مینگل نے 29لاکھ فی ایکٹر کے حساب سے حکومت کو دی تھی، محمود خان اچکزئی نے کہا کوئٹہ میں ایک منصوبہ کیلئے سرکاری حکام 6کروڑ کی زمین خرید رہے تھے بعد میں90لاکھ روپے میں خرید کر حکومت کو دی گئی یہ ظلم ہو رہا ہے، خورشید شاہ نے کہا عام روایت ہے کہ سرکاری حکام 5لاکھ کی چیز کو5کروڑ روپے میں خریدتے ہیں۔