پاکستان نے افغان طالبان کے موسم سرما کے دوران دوبارہ منظم ہونے کے لئے پاکستانی سرزمین استعمال کرنے کے الزام کو مسترد کردیا

حزب اسلامی کے ساتھ امن معاہدہ کو دوسرے افغان گروپ اپنے لئے مثال بنا سکتے ہیں،اقوام متحدہ میں پاکستان کے قائم مقام مستقل مندوب نبیل منیر کا سلامتی کونسل میں اظہار خیال

منگل 20 دسمبر 2016 13:46

اقوام متحدہ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 دسمبر2016ء) پاکستان نے افغان طالبان کے موسم سرما کے دوران دوبارہ منظم ہونے کے لئے پاکستانی سرزمین استعمال کرنے کے الزام کو مسترد کردیا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے قائم مقام مستقل مندوب نبیل منیر نے سلامتی کونسل میں افغانستان کی صورتحال پر مباحثے کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دہشت گردوں کے تمام نیٹ ورکس کے خاتمے کے لئے پرعزم ہے ۔

پاکستانی مندوب نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات میں حالیہ اضافے کی وجوہات افغانستان کے اندر ہیں باہر نہیں۔ افغان سیکورٹی فورسز کی بہادری کے باوجود وہاں صورتحال خراب ہو رہی ہے۔ افغان حکومت کے کنٹرول سے باہر علاقوں میں بڑی تعداد میں دہشت گرد اور انتہا پسند گروپوں کی موجودگی افغانستان اور اس کے ہمسایہ ممالک کے طویل مدت استحکام کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔

(جاری ہے)

ہم بغیر ثبوت کے لگائے گئے اس الزام کو مسترد کرتے ہیں کہ افغانستان کے طالبان موسم سرما کے دوران پاکستان میں خود کو منظم کرتے ہیں ضرب عضب کی وجہ سے دہشت گردوں کے ٹھکانے در حقیقت افغانستان میں منتقل ہو گئے ہیں اور دہشت گردوں کے خلاف اس آپریشن کی کامیابی کا دنیا نے اعتراف کیا ہے۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ پاک افغان سرحد پر نقل و حرکت کو کنٹرول کرنے کے لئے سخت انتظامات ناگزیر ہیں اور اس حوالے سے علاقائی سطح پر کوئی انتظام اس لئے موثر نہیں کہ افغان حکومت اس حوالہ سے دوطرفہ بنیاد پر کام کرنے پر آمادہ نہیں۔

پاکستانی مندوب نے افغان قیادت کی طرف سے باہمی اختیارات کو تعاون کے جذبے سے حل کرنے کے عزم کو سراہا تاہم کہا کہ افغانستان میں سیاسی اتار چڑھائو اور سلامتی کی صورتحال باعث تشویش ہے۔ پاکستان نے برسلز میں افغانستان کے لئے تعاون کا اظہار کیا ہے اور وہ علاقائی سطح پر بھی تعاون جاری رکھے گا۔ پاکستان پائیدار امن کے لئے پرعزم ہے کیونکہ اصلاحات پر کامیابی سے عملدرآمد اور امن و مفاہمت کے لئے سرگرمی سے کوششوں کا انحصار اس پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ امن و مفاہمت کی کوششوں کے نتائج سامنے آنا ابھی باقی ہیں لیکن اس کی ذمہ داری پاکستان پر عائد نہیں کی جا سکتی۔ افغان فریقوں کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ فوجی اقدمات سے امن قائم نہیں کیا جاسکتا۔ فریقین کے درمیان اعتماد اور طے شدہ باتوں پر خلوص سے عمل بنیادی امور ہیں۔ حزب اسلامی کے ساتھ امن معاہدہ کو دوسرے افغان گروپ اپنے لئے مثال بنا سکتے ہیں۔

منفی بیانات کے باوجود پاکستان افغانستان کے لئے تجارتی راستے کھلے رکھے ہوئے ہے۔ تنازعات کا پرامن حل علاقائی رابطوں کے لئے بہتر ہوگا۔ پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کی کئی عشروں تک میزبانی کی اور وہ ان کی باوقار اندازمیں وطن واپسی کا خواہاں ہے۔ پاکستان اپنے افغان بھائیوں اور بہنوں کی ایک اچھے مستقبل کے لئے جدوجہد میں ان کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ قبل ازیں طالبان سفیر محمود سیکال نے اظہار خیال کے دوران کہا کہ موسم سرما طالبان کے لئے لڑائی سے رخصت کا موسم ہے۔ جس کے دوران وہ پاکستان میں مدارس میں قیام کرتے ہیں۔ انہوں نے تمام ایسے گروپوں سے کہا کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ بات چیت میں شامل ہوں۔