اگر مندروں پر حملے ہوئے تو کیا مساجد محفوظ ہیں‘ یہاں نہ اکثریت محفوظ ہے نہ اقلیت‘ کسی ایک کا جھنڈا نہ اٹھایا جائے، اجتماعی تکالیف کے ازالے کیلئے کام کیا جائے،حکومت اقلیتوں کی پوری طرح دیکھ بال کر رہی ہے‘ ان کے حقوق کے تحفظ کیلئے الگ وزارت بھی بنائی گئی ہے، مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے کہا ہے کہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو ان کے مذہبی عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہونا چاہیے‘ اقلیتوں کو ان کے حقوق ملنے چاہئیں‘ مذہب کے نام پر قتل و غارت بند ہونی چاہیے

وزیر مملکت برائے مذہبی امور پیر امین الحسنات شاہ کا ایم کیوایم کے سینیٹر طاہر مشہدی کی تحریک پر جواب

پیر 19 دسمبر 2016 21:38

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 19 دسمبر2016ء) وزیر مملکت برائے مذہبی امور پیر امین الحسنات شاہ نے کہا ہے کہ اگر مندروں پر حملے ہوئے تو کیا مساجد محفوظ ہیں‘ یہاں نہ اکثریت محفوظ ہے نہ اقلیت‘ کسی ایک کا جھنڈا نہ اٹھایا جائے، اجتماعی تکالیف کے ازالے کے لئے کام کیا جائے،حکومت اقلیتوں کی پوری طرح دیکھ بال کر رہی ہے‘ ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے الگ وزارت بھی بنائی گئی ہے، مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے کہا ہے کہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو ان کے مذہبی عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہونا چاہیے‘ اقلیتوں کو ان کے حقوق ملنے چاہئیں‘ مذہب کے نام پر قتل و غارت بند ہونی چاہیے۔

پیر کو ایوان بالا کے اجلاس کے دوران سینیٹر کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی نے تحریک پیش کی کہ یہ ایوان ملک میں مذہبی آزادی کو تحفظ دینے کے لئے حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات زیر بحث لائے۔

(جاری ہے)

تحریک پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ تمام مذاہب کے پاکستانیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب کے مطابق پاکستان میں رہائش رکھ سکتے ہیں لیکن آج حالات ایسے ہیں کہ ہم مساجد حتیٰ کہ اپنے گھروں میں نہیں جاسکتے یہ پاکستان کا سب سے اہم ایشو ہے۔

سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ تمام مذاہب کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہونی چاہیے‘ سندھ حکومت نے مذہب کی زبردستی تبدیلی کے خلاف اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے بل منظور کئے ہیں جس پر انہیں خراج تحسین پیش کرتی ہوں۔ تمام مذاہب کو آزادی ہونی چاہیے‘ آج بھی مذہب کے نام پر قتل و غارت ہوتی ہے۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ آج نفرتوں کو ہوا دی جارہی ہے‘ ہمیں نفرتوں کو ختم کرنا ہوگا۔

سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ وزارت داخلہ کا کردار کمزور ہے۔ شدت پسندی بلا کی صورت میں ملک پر مسلط ہے‘ سندھ حکومت کی پالیسیاں وفاقی حکومت کے لئے مثال ہیں۔ سندھ میں مٹھی کا شہر ایسا ہے جہاں مسلمان ہندوئوں کے احترام میں گائے ذبح نہیں کرتے اور ہندو روزہ رکھتے ہیں۔ سینیٹر تنویر الحق تھانوی نے کہا کہ اقلیتیں ایم کیو ایم کے قریب ہیں کیونکہ ایم کیو ایم میں اقلیتوں کے لئے کوئی نفرت نہیں ہے اور ان کے حقوق محفوظ ہیں۔

بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں اقلیتیں زیادہ محفوظ ہیں۔ بعض اوقات کچھ لوگ گڑبڑ کرتے ہیں جسے کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں ہندو مساجد کے قریب پٹاخے چھوڑتے ہیں‘ انہیں بھی مسلمانوں کے جذبات مجروح نہیں کرنے چاہئیں۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ ہم دنیا میں مذہبی آزادی چاہتے ہیں لیکن پاکستان میں اس پر عمل نہیں کرتے۔

بعض مذہبی لوگ نفرتیں پیدا کرتے ہیں۔ قوم کو فرقوں میں تبدیل کر رکھا ہے۔ اسلام کی حقیقی روح کے مطابق مذہبی آزادی ہونی چاہیے۔ اسلام علماء کا نہیں انسانیت کا مذہب ہے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ جہاں اظہار رائے پر پابندی ہوگی وہاں مذہبی آزادی نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی اور نظریے کے نام پر اظہار رائے پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔

کئی جگہوں پر مندر اور گوردوارے گرائے گئے ہیں۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ بعض لوگ کسی اور کو خوش کرنے کے لئے متنازعہ بیانات دیتے ہیں۔ پاکستان اقلیتوں کے لئے محفوظ ملک ہے۔ حضرت علیؓ نے دس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا لیکن سندھ میں پابندی لگا دی گئی۔ اگر کسی غیر مسلم کو ہی ملک کا صدر بنانا تھا تو پھر پاکستان بنانے کی کیا ضرورت تھی۔

سینیٹر مولانا عطاء الرحمان نے کہا کہ پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریے پر رکھی گئی اور اس وقت یہ فیصلہ کرلینا چاہیے تھا کہ پاکستان کی حمایت کرنی ہے یا نہیں۔ آج کچھ لوگوں کو افسوس ہے کہ انہوں نے 1973ء کا آئین کیوں بنایا اگر ایسا ہے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے اسلامی کا لفظ کاٹ دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں آنے والوں کو اپنے آئین اور نظریے کا پتہ ہونا چاہیے۔

اسلام میں کسی پر کوئی جبر نہیں ہے۔ کیا پاکستان میں قومیت و لسانیت کی بنیاد پر جھگڑے نہیں ہوتے‘ بلوچستان اور کراچی میں اس طرح کے فسادات ہوتے رہے ہیں۔ بعض لوگ پاکستان کی یکجہتی کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم زبردستی مذہب کی تبدیلی کے حق میں نہیں لیکن کسی کے اسلام قبول کرنے پر پابندی کے حق میں بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایوان میں اس طرح کی باتیں زیر بحث نہ لائی جائیں۔

سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ پاکستان میں مذہبی جماعتوں کا اتحاد رہا ہے‘ پوری دنیا میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور ہم پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں لیکن یہ تحفظ مسلمانوں کو دوسرے ملکوں میں حاصل نہیں ہے۔ مسلمانوں پر شدت پسندی کا الزام ایک سازش کے تحت لگایا جاتا ہے۔ کلبھوشن یہاں محبتیں بانٹنے نہیں آیا تھا‘ ہماری پارٹی کے اندر بھی عیسائی اور ہندو دونوں موجود ہیں اور ہمارے ممبران اسمبلی بھی ہیں۔

جاوید عباسی نے کہا کہ ہمارے ملک میں ہر بندہ فتویٰ بھی دیتا ہے اور ہر بندہ ڈاکٹر بن کر دوائی بھی دیتا ہے۔ اسلام امن کا درس دیتا ہے ہمیں شدت پسندی کو روکنا ہوگا۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ ہم نے سندھ میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے بل منظور کیا ہے۔ ہمیں حکم کے معانی و مفہوم پر غور کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تمام زمینی خدائوں سے انکار کرتے ہیں اور تمام انسان مساوی ہیں اور ان میں بلا لحاظ مذہب اخوت کا رشتہ ہے۔

گیان چند نے کہا کہ اگر ملک میں شدت پسندی ہے تو ایسے مسلمان بھی ہیں جنہوں نے بھجن گائے ہیں۔ اقلیتیں قائد کا پاکستان چاہتی ہیں۔ ہمیں برداشت اور تحمل کو فروغ دینا ہوگا۔ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے‘ ان کو تحفظ کا احساس دلایا جائے ہم طالبان کی بھی مذمت کرتے ہیں اور مودی کے اقدامات کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ سندھ میں ہندو لڑکیوں کا مذہب ہی کیوں تبدیل ہو رہا ہے لڑکوں کا کیوں نہیں پاکستان اقلیتوں کے لحاظ سے اچھا ملک ہے لیکن ہمیں شکایتیں بھی ہیں۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ جو گفتگو اس ایوان میں ہو رہی ہے وہ افسوسناک ہے۔ چیئرمین نے کسی کو روکا نہیں‘ ملک ان باتوں کا متحمل نہیں ہو سکتا جو کی جارہی ہیں ہمیں دیکھنا چاہیے‘ دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے یورپ میں بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں ہو رہی ہیں۔ نقاب اتارے جارہے ہیں۔ جرمنی میں کوئی ہولوکاسٹ نہیں ہوا جو شام عراق میں ہو رہا ہے۔

عورتوں بچوں کو مارتے ہیں‘ مذہبی منافرت بھی موجود ہے۔ دنیا کی تاریخ میں پہلی و دوسری جنگ عظیم میں جتنے لوگ مرے وہ تاریخ میں نہیں مرے‘ یہ غلط ہے کہ مذہب کے لئے لڑائی ہو رہی ہے۔ سیاسی و معاشی مفادات کے لئے لڑائیاں ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ ہیں۔ چکوال میں جو واقعہ ہوا نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن چکوال میں جس فرقے کے حق میں امریکہ نے بیان دیا اس کا کوئی شخص مرا نہیں نہ زخمی ہوا‘ دوسرے فرقے کے لوگ ہلاک و زخمی ہوئے۔

اس ایشو پر امریکہ نے بیان نہیں دیا جہاں ہزاروں لوگ مر رہے ہیں۔ ہمیں کسی لبرل ازم روشن خیال کی ضرورت نہیں‘ ہمارے مذہب میں سب کچھ موجود ہے۔ طالبان کی قید میں صحافی مسلمان ہوگئی کیونکہ اس کے ساتھ اچھا سلوک ہوا تھا۔ ایک آگ ہے جو مسلمان دنیا میں لگی ہے کچھ لوگ اس آگ کو اس ملک میں لانا چاہتے ہیں ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ملک کلمہ کی بنیاد پر بنا ہے ورنہ بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔

میں نے لبرل ازم کی تاریخ پڑھی ہے اس کے مطابق کوئی مسلمان لبرل نہیں ہو سکتا‘ لبرل ہونا اسلام اور قرآن کی ضد ہے۔ عثمان سیف اللہ نے کہا کہ ہم نے پہلے پاکستان کی بات کرنی ہے بعد میں اسلامی امہ کی بات کرنی ہے‘ ملک میں نفرت بہت بڑھ گئی ہے‘ شدت بڑھ گئی ہے‘ ہمیں کفر و اسلام کے فقرے نہیں دینے چاہئیں۔ سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ دنیا ہمیں ایک بات کہتی ہے کہ غیر ریاستی عناصر کو ختم کیا جائے‘ یہ کون ہیں شیعہ کے کافر ہونے کا فتویٰ کس نے دیا ہی پہلے وہ کافر نہیں تھے اب کس نے ان کو کافر کہا ہے۔

بحث سمیٹے ہوئے پیر امین الحسنات شاہ نے کہا کہ قائداعظم نے اقلیتوں کو ان کے حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی تھی۔‘ دنیا میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایسے اقدامات نہیں کئے گئے جیسے ہم نے کئے ہیں۔ ہم نے اس مقصد کے لئے وزارت اور ڈویژن بنایا ہے۔ اگر مندروں پر حملے ہوئے تو کیا مساجد محفوظ ہیں‘ یہاں نہ اکثریت محفوظ ہے نہ اقلیت‘ کسی ایک کا جھنڈا نہ اٹھایا جائے۔ اجتماعی تکالیف کے ازالے کے لئے کام کیا جائے۔ اٹھارہویں ترمیم کے باوجود وفاقی حکومت اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے بہت کام کر رہی ہے۔ ان کے لئے خصوصی فنڈز ہیں ان کی مدد کی جاتی ہے۔ حکومت اقلیتوں کی پوری طرح دیکھ بھال کر رہی ہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لئے بھی حکومت نے کئی اقدامات کئے ہیں۔

متعلقہ عنوان :