نام بدل کر کام کرنے والی کالعدم تنظیموں کو بات چیت کے ذریعے قائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ‘مشاہد اللہ خان

یہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ہی ہو رہا ہے‘ وفاقی حکومت دہشتگردی کے خلاف بھرپور کام کر رہی ہے‘ پرویز رشید کو فوج کے کہنے پر سائیڈ لائن نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان سے استعفیٰ لیا گیا ہے، وہ اپنا کام کر رہے ہیں‘، دنیا نے دیکھا کہ بڑے دہشتگرد عزیر بلوچ سے قائم علی شاہ اور فریال تالپور سے ملاقاتیں کرتے رہے‘مسلم لیگ (ن) کے رہنما کی انٹرویو

ہفتہ 17 دسمبر 2016 22:39

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 17 دسمبر2016ء) مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ نام بدل کر کام کرنے والی کالعدم تنظیموں کو بات چیت کے ذریعے قائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ہی ہو رہا ہے‘ وفاقی حکومت دہشتگردی کے خلاف بھرپور کام کر رہی ہے‘یہ انتہائی لغو بات ہے کہ چوہدری نثار نے یا رانا ثنا اللہ نے کسی دہشتگرد سے ملاقات کی ہے ۔

اپنے ایک ٹی و ی انٹر ویو میں سینیٹر مشاہداللہ خان نے کہا کہ بعض کالعدم تنظیموں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں، جب وہ لوگ اپنی تنظیم کا نام بدل لیں اور انہیں عدالت اور الیکشن کمیشن انتخابات لڑنے کی جازت دے دے تو ان سے بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلوچستان کے عسکریت پسند بھی تو بات چیت کے ذریعے ہی ہتھیار پھینکتے ہیں، یہ تمام کام نیشنل ایکشن پلان کے تحت ہو رہے ہیں۔

(جاری ہے)

نہوں نے کہا کہ چوہدری نثار سے استعفی مانگنے والوں کے دور میں پورے ملک میں دہشتگردی تھی لیکن اس وقت تو کسی نے استعفی نہیں دیا، کراچی میں سپریم کورٹ نے تین پارٹیوں پر الزام لگایا تھا کہ ان کے عسکری ونگ ہیں۔ اس میں وہ پارٹی سر فہرست ہے جو آج الزامات لگا رہی ہے لیکن ان کے دور میں تو کسی نے بھی استعفی نہیں دیا۔پانچ سال میں کراچی میں 9 ہزار لوگ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے تھے، دنیا نے دیکھا کہ بڑے دہشتگرد عزیر بلوچ سے قائم علی شاہ اور فریال تالپور سے ملاقاتیں کرتے رہے ، ملک میں ہر روز ہنگامے ہوتے تھے اور خود کش حملے ہوتے تھے لیکن اب ان میں کمی آئی ہے ڈان لیکس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ میں حکومتی پارٹی کا حصہ ہوں لیکن حکومت میں نہیں ہوں اس لیے بہت سی باتیں مجھ تک نہیں پہنچتیں، پرویز رشید کو فوج کے کہنے پر سائیڈ لائن نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان سے استعفیٰ لیا گیا ہے، وہ اپنا کام کر رہے ہیں، حکومت اپنے طور پر کام کرتی ہے جس کے نیچے فوج سمیت تمام ادارے کام کرتے ہیں ، حکومت کو اپنے امور کے دوران بعض سخت فیصلے بھی کرنے پڑتے ہیں۔