افغانستان میں فوج تعینات رکھی جائی جرمن پارلیمنٹ میں گرما گر بحث

حکومتی عہدیدار بھی افغانستان میں بلٹ پروف جیکٹس کے بغیر نہیں جاتے،مہاجرین کی ملک بدری پر بھی بحث

ہفتہ 17 دسمبر 2016 12:15

برلن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 دسمبر2016ء) جرمن پارلیمنٹ میں سیاسی پناہ کے ناکام درخواست گزار افغان باشندوں کی ملک بدری کے متنازعہ عمل کے حوالے سے بحث جاری ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے کہاہے کہ افغانستان کے کچھ حصوں کو ’محفوظ‘ قرار دینا درست نہیں جبکہ جرمن حکومت کا موقف ہے کہ افغانستان کے کچھ حصے محفوظ ہیں اور ایسے علاقوں سے تعلق رکھنے والے افغان باشندوں کو سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو جانے پر واپس بھیجا جا سکتا ہے۔

جرمنی اور افغانستان کی حکومتوں کے درمیان اس سلسلے میں رواں برس اکتوبر میں ایک معاہدہ طے پایا تھا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق گرین پارٹی کے رہنما سیم اوزڈیمِر نے کہاکہ یہ ان تمام افراد کے منہ پر ایک طمانچہ تھا، جنہیں جرمنی میں فی الحال رہائشی پرمٹ نہیں ملا ہے۔

(جاری ہے)

ایسے افراد اب مزید خوف کا شکار ہو گئے ہیں۔انہوں نے چانسلر میرکل کی جماعت سی ڈی یو کے کچھ رہنماؤں کی جانب سے دیے گئے ان بیانات پر بھی تنقید کی، جن میں کہا گیا تھا کہ واپس بھیجے جانے والے افغان باشندوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق نہیں۔

ان کا کہنا تھاکہ واپس بھیجے جانے والوں کی زندگیاں خطرات کا شکار ہو سکتی ہیں۔ پارلیمان افغانستان میں فوج تعینات رکھنے کے حق میں ہے۔ حکومتی عہدیدار بھی افغانستان میں بلٹ پروف جیکٹس کے بغیر نہیں جاتے اور طالبان بھی اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان ایک محفوظ ملک ہی اوزڈیمِر ان جرمن سیاست دانوں میں شامل ہیں، جو سیاسی پناہ کے ناکام درخواست گزار افغان باشندوں کی ملک بدری کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔

جرمنی میں بائیں بازو کی جماعت کی رہنما کاٹیا کِپِنگ نے بھی اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہاکہ یہ حکومتی فیصلہ بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہے۔دوسری جانب حکومت کا موقف ہے کہ یہ ڈی پورٹیشن پرامن طریقے سے ہوئی۔ وزیرداخلہ تھوماس ڈے میزیئر کا کہنا تھا کہ ملک بدر کیے جانے والے افراد میں سے کچھ ’جرائم پیشہ‘ تھے