ایوان بالااجلاس:راکین نے ملک میں سیاسی مخالفت کی بنا پر کارکنوں کو پابند سلاسل رکھنے اور تشدد کا نشانہ بنانے پر افسوس کا اظہار کردیا

حکومتوں کو اپنے رویئے تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور ، موجودہ حکومت کے دور میں کسی کو بھی سیاسی مخالفت کی بناء پر قید نہیں کیا گیا پاکستان کے قیام کے بعد موقع پرست اسٹیبلشمنٹ نے حکومت پر قبضہ کر کے سیاسی قوتوں کو پیھچے دھکیل دیا،گیتاچند اور دیگر کا اظہار خیال

جمعہ 16 دسمبر 2016 17:33

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 16 دسمبر2016ء) ایوان بالا میں اراکین نے ملک میں سیاسی مخالفت کی بنا پر کارکنوں کو پابند سلاسل رکھنے اور تشدد کا نشانہ بنانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سیاسی حکومتوں کو اپنے رویئے تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔اراکین نے کہا کہ آمرانہ ذہنیت رکھنے والے جمہوری قوتوں کو آپس میں لڑا کر اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں ملک میں قانون کی بالادستی اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے جبکہ وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں کسی کو بھی سیاسی مخالفت کی بناء پر قید نہیں کیا گیا ہے ۔

سندھ میں تمام گرفتاریاں صوبائی سطح پر کی گئی ہیں وفاقی حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔

(جاری ہے)

جمعہ کے روز ایوان بالا میں اپوزیشن اراکین کی جانب سے سیاسی قیدیوں پر بحث کی تحریک پر اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹرعتیق شیخ نے کہا کہ اگر ہم دن کو دن اور رات کو رات نہ کہہ سکیں تو میں اس ایوان میں بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے ہمیں ایسے اداروں کے خلاف آواز اٹھانا ہو گی جو صرف چہروں کی پسند و ناپسند پر فیصلے کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ملک میں آج بھی سیاسی کارکن قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں ۔

ماورائے عدالت قتل ہونے والوں کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے ۔ سینیٹر گینا چند نے کہا کہ پاکستان کے قیام کے بعد موقع پرست اسٹیبلشمنٹ نے حکومت پر قبضہ کر کے سیاسی قوتوں کو پیھچے دھکیل دیا ملک کے عظیم لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو جمہوری طریقے سے ہٹانے کے لئے شہید کیا گیا اور تحریک کو دبانے کی کوششیں کی گئین انہوں نے کہا کہ آج ہم جمہوریت کا جو ثمر کھا رہے ہیں وہ ہمارے بزرگوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے ۔

سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ ہر وہ شخص جس نے حق کے لئے آواز بلند کی اس کو جیلوں میں ڈالا گیا ہے اور آج بھی یہی ہو رہا ہے اداروں کو سیاسی مخالفین کو دبانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ میں غفلت کے ذمہ دار عناصر کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے ۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ جمہوریت اور آمریت کی باتیں کرنے والے تاریخ کو بھول جاتے ہیں کہ مادر ملت فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کے ساتھ کون کھڑے تھے وہ کون تھے جنہوں نے ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگایا ۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں آج بھی مخالف سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ رحمان بھولا ، آیان علی اور ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر ہم شرمندہ نہیں ہیں جو لوگ بھی ملک کو لوٹیں گے انہیں پابند سلاسل کیا جائے گا انہوں نے کہا کہ ہم ماضی کو نہیں بھولے ہیں ۔سینیٹر دھامرہ نے کہا کہ ملک کا سب سے بڑا سکینڈل پانامہ کیس ہے انہوں نے کہا کہ سینیٹر مولانا عطاالرحمان نے کہا کہ موجودہ تحریک کا مقصد صرف ایک پارٹی سے تعلق رکھنے والوں کے حالات پیش کرتا ہے پاکستان میں گزشتہ 68 سالوں سے کوئی جمہوری حکومت نہیں آئی ہے اور جو بھی حکومتیں آئی ہیں وہ آمروں کے چھتری کے نیچے ہوئی تھی اور سیاسی جماعتوں کو آپس میں لڑایا گیا انہوں نے کہا کہ 1980 سے سیاسی حکومتوں کی کرپشن کی بنیاد پر ختم کیا گیا اور ہم آپس میں دست وگربیان ہیں ہمیں حقیقت کو دیکھنا چاہئے انہوں نے کہاکہ بدقسمتی سے جب تک اداروں کو سلام نہ کریں اور ان کے احکامات پر نہ چلیں تو ہمیں اقتدار نصیب نہیں ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ آج ملک میں جتنے بھی قیدی ہیں ان کو کرپشن کی وجہ سے پکڑا گیا ہے ۔

سینیٹر میر کبیر نے کہاکہ کسی بھی جمہوری ملک میں سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالنا قابل مذمت ہے انہوں نے کہا کہ کسی ڈکٹیٹر کے دور میں سیاسی کارکنوں کو قید میں ڈالنا تو ہوتا ہے مگر جمہوری حکومتوں نے اس ایوان کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہیں کیا ہے انہو ںنے کہا کہ ملک میں مختلف قسم کے قانون ہیں اگر ملک کو بچانا ہے تو سیاسی انتقام کا سلسلہ بند کرنا ہوگا ۔

سینیٹر حافظ حمداللہ نے کہا کہ آج ریاست کے دونوں ستون کمزور ہیں ملک کی معیشت کمزور ہے اور سلامتی کے مسائل ہیں آج پاکستان دہشتگردی کے حوالے سے بین الاقوامی عدالت میں محصور ہے انہوں نے کہا کہ ملک میں دو طبقوں نے حکومت کی ہے کس نے جمہوریت اور کس نے ریاست کے نام پر حکومت کی ہے انہوں نے کہا کہ آج ریاست 72 ارب ڈالر مقروض ہے اور انہی دو طبقوں کی پالیسیوں کی وجہ سے ہمیں دہشتگرد اور کرپٹ کہا جا رہا ہے آج کسی کو مذہبی دہشتگردی اور کرپشن کے نام پر جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے ہمیں اپنے رویوں پر نظر ڈالنا ہو گی انہوں نے کہا کہ آج تک یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ ملک کو نقصان کس نے پہنچایا ہے ایک دوسرے پر الزامات لگا کر ہم خود جمہوریت کو کمزور کر رہے ہیں اگر ہم اصلاح چاہتے ہیں تو اپنے آپ کا احتساب کرنا ہو گا ۔

سینیٹر بیرسٹر سیف نے کہا کہ جب قانون کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے تو ہم دہشتگرد ہیں پاکستان میں سیاسی حکمرانوں اور آمروں نے قانون کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا آج ملک میں قانون اور عدالت دہشت کی علامت بن چکے ہیں انہوں نے کہا کہ نظام کی خرابی کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے ۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ہم خود سیاسی اسیر بناتے ہیں کسی دہشتگرد یا کرپشن کرنے والے کو سیاسی اسیر نہیں بلکہ سزا دینا ہو گی ہمیں پاکستان کے دشمن اور سیاسی قیدی میں فرق کرنا ہو گا انہوں نے کہا کہ ہم آمر کا نام لیتے ہیں گو آمر کی گود میں پناہ لینے والے کو بھول جاتے ہیں ہمیں اپنے درمیان راست گوئی لانا ہو گی ۔

بلدیہ ٹائون کے مجرم کو کٹہرے میں لانا یا پختونوں کو قتل کرنے والے کو سیاسی اسیر کہنا درست نہیں ہے ۔سینیٹر شیری رحمان نے کہاکہ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم نے کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے ملک میں سیاسی مخالفت کی بنا پر سزائیں دینے کا سلسلہ جاری ہے ڈاکٹر عاصم اس کی مثال ہیں انہوں نے کہا کہ ایک جانب ہم سیاسی مخالفین کو سزائیں دے رہے ہیں جبکہ دوسری جانب سے کالعدم تنظیمیں کھلے عام جلسے کر رہی ہے اور یہ نیشنل ایکشن پلان کی خلاف ورزی ہے ۔

اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن نے کہاکہ آج 16 دسمبر کی نسبت سے سقوط ڈھاکہ اور آرمی پبلک سکول کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت تھی یہ پاکستان کی تاریخ میں سیاہ دن بن گیا ہے انہوں نے کہا کہ آج ملک میں مستند شخصیات پر الزامات لگائے جا رہے ہیں انہوں نے کہاکہ سیاسی قیدی وہ نہیں ہوتا ہے جو اپنے آپ کو بچانے کے لئے ملک سے دس سال باہر جانے کا معاہدہ کرے بلکہ سیاسی قیدی وہ ہوتا ہے جو معافی نہیں مانگتا ہے انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم حسین کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک کیا گیا وہ اسے سیاسی قیدی بنا دیتا ہے انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی عیسی کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ وزیر داخلہ کالعدم تنظیموں کے جلسے کروانے کے انتظامات کرتے ہیں وزیر اعظم اپنے منہ سے انڈین ایجنٹ گلھبوشن کا نام نہیں لیتے ہیں اور گلبھوشن کو بھی سیاسی قیدی کا نام دیا جائے گا ۔

تحریک پر بحث کو سمیٹتے ہوئے وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان نے کہا کہ 16 دسمبر کا دن ہمارے لئے تلخ یادیں رکھتا ہے اور یہ دن کسی صورت بلایا نہیں جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی یہ ہے کہ دہشتگردی میں کافی حد تک کمی ہوئی ہے اور پاکستان میں ہونے والے بڑے بڑے واقعات میں ملوث عناصر کو گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے اور انہیں قرار واقعی سزائیں دی گئی ہیں انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس کوئی سیاسی قیدی نہیں ہے اور نہ ہی کسی سیاسی مخالفت کے طور پر گرفتار کیا جائے گا یہ موجودہ حکومت کی واضح پالیسی ہے یہ تمام اداروں کی اپنی پالیسیاں ہیں جو کہ جرم کی نوعیت کے مطابق فیصلے کرتی ہے انہوں نے کہا کہ آج جتنے بھی سیاسی قیدیوں کا ذکر کیا گیا اتفاق سے ان تمام کا تعلق سندھ سے ہے جن کے ساتھ وفاق کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔

(جاوید)