سینیٹ نے کمپنیز آرڈیننس 2016ء کو کثرت رائے سے مسترد کر دیا

کمپنیز آرڈیننس 2016ئ32 سال پرانا قانون تبدیل کر کے لایا گیا ، اس کی فوری ضرورت اور بزنس کمیونٹی کا دیرینہ مطالبہ تھا،سینیٹرز پڑھے بغیر اس بل کو مسترد کرنے کی نئی روایت ڈال رہے ہیں ‘ بزنس میں شفافیت ‘ کرپشن ‘ منی لانڈرنگ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کیلئے شقیں شامل کی گئیں، ارکان تجاویزدیں، ۔ وزیر قانون زاہد حامد کمپنیز آرڈیننس2016ء جمہوری روایات کے خلاف ہے ، جمہوری حکومت میں آرڈیننس کی بلادستی کو یقینی بنانا چاہیے،آرڈیننس لانا پارلیمنٹ کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے ، پارلیمان کو کمزور کیا جا رہا ہے ،آرڈیننس واپس لے کر بل لایا جائے ،سینیٹر عبدالقیوم ‘ عثمان کاکڑ ‘ محسن لغاری ‘ محسن عزیز‘ اعتزاز احسن ‘ فرحت اللہ بابر اور جہانزیب جمالدینی کاکمپنیز آرڈیننس 2016ء کے حوالے سے تحریک پر اظہار خیال

جمعرات 15 دسمبر 2016 21:23

سلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 15 دسمبر2016ء) ایوان بالا نے کمپنیز آرڈیننس 2016ء کو نامنظور کرنے کے حوالے سے قرار داد کثرت رائے سے منظور کرلی ۔ وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ کمپنیز آرڈیننس 2016ئ32 سال پرانا قانون کو تبدیل کر کے لایا گیا ہے اور اس کی فوری ضرورت تھی اور بزنس کمیونٹی کا دیرینہ مطالبہ تھا۔ سینیٹر کی جانب سے اس کو پڑھے بغیر مسترد کرنے کی نئی روایت لائی جا رہی ہے ‘ بزنس میں شفافیت ‘ کرپشن ‘ منی لانڈرنگ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے شقیں شامل کی گئی ہیں۔

ارکان بغیر پڑھے مسترد کرنے کی بجائے تجاویزدیں۔ ارکان سینیٹ نے کہا کہ کمپنیز آرڈیننس2016ء جمہوری روایات کے خلاف ہے ۔ جمہوری حکومت میں آرڈیننس کی بلادستی کو یقینی بنانا چاہیے۔

(جاری ہے)

آرڈیننس لانا پارلیمنٹ کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے اور پارلیمنٹ کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ آرڈیننس واپس لے کر بل لایا جائے۔ آرڈیننس پارلیمنٹ کی بالادستی کے خلاف ہے۔

ان خیالات کا اظہار عبدالقیوم ‘ عثمان کاکڑ ‘ محسن لغاری ‘ محسن عزیز‘ اعتزاز احسن ‘ فرحت اللہ بابر ‘ جہانزیب جمالدینی نے کمپنیز آرڈیننس 2016ء کو نامنظور کرنے کے حوالے سے تحریک پر اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ جمعرات کو سینٹ کا اجلاس چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی کی زیر صدرت ہوا۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی جانب سے کمپنیز آرڈیننس بل 2016ء کو نا منظور کرنے کے حوالے سے قرار داد پیش کی گئی جبکہ حکومت کی جانب سے زاہد حامد نے مخالفت کی۔

سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ حکومت کیوں آرڈیننس لاتی ہے۔ جمہوریت کے نام پر آمریت کے دور کی روایات دہرائی جا رہی ہیں۔ کمپنیز آرڈیننس کے بعد 77 نوٹس کمپنیوں کو بھیجے گئے ہیں۔ آرڈیننس کی روایت کو ختم ہونا چاہیے۔ جتنے بھی بل سینٹ میں آئے وقت پر پاس ہوئے۔ آمریت کی روایات جمہوری حکومت میں زندہ ہیں۔ کمپنیز آرڈیننس 2016ء کو مسترد کیا جائے اور حکومت سے درخواست کی جائے کہ بل لایا جائے ۔

سینیٹر سردار اعظم موسیٰ خیل نے کہاکہ قانون سازی پارلیمنٹ کا بنیادی حق ہے ۔ آرڈیننس کے ذریعے پارلیمنٹ کے حق کو مارنے کی مذمت کرتے ہیں۔ اس کے تحت سیاہ کو سفید کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سینیٹر کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن سمیت سب کو پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانا چاہیے۔ حکومت کو اس آرڈیننس کو دست بردار کرنا چاہیے ۔

سینیٹر عبدالقیوم نے کہاکہ آئین کے تحت آرڈیننس جاری کرنے میں ممانعت نہیں اگر اس کو ختم کرنا ہے تو آئین میں ترمیم کر دیں۔ سینیٹر شیری رحمن نے کہاکہ آرڈیننس میں 200 صفحات ہیں۔ بنیادی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں۔ یہ تو ا یک بل ہے اس پر بحث اور مطالعے کا وقت ہونا چاہیے۔ آرڈیننس بلڈوز کرنے کی آر میں ایسے قانون آ جائیں گے جس پر سب کو شرمندہ ہونا پڑے گا۔

کمپنیوں کو اس آرڈیننس کے تحت ریگولیٹ کیا جائے گا اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ موجودہ حکومت تیسری بار پارلیمنٹ کو نظر انداز کر کے آرڈیننس لایا گیا ہے۔ یہ مارشل لاء کی روایت ہے۔ اس کو مسترد کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی ہونی چاہیے۔ سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ جب ہم پارلیمنٹ کو نظر انداز کریں گے تو اس سے پارلیمنٹ کمزور ہ وگی جب خود پارلیمنٹ کو کمزور کر رہے ہیں تو پھر دوسروں سے شکوہ کرنے کی ضرورت نہیں۔

اتنی جلدی میں آرڈیننس لانے کی ضرورت کیا تھی ۔ میں ا سکی مخالفت کرتا ہوں۔ پارلیمنٹ کو کمزور نہیں کرنا چاہیے۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہاکہ قرارداد کی مخالفت کرتا ہوں۔ کمپنیز آرڈیننس 1984ء کو ختم کر کے نیا آرڈیننس لایا جا رہا ہے۔ حکومت نے اجتماعی سکور کو نظر انداز کر کے انفرادی شعور کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ بل کو سٹڈی کرنے کی ضرورت ہے۔ غیر ملکی کمپنیوں کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اس کا برا اثر ہو گا۔

حکومت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ غلطی ہوئی ہے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ حالات ناگزیر ہوں تو حکومت آرڈیننس کی سہولت سے فائدہ اٹھا سکتی ہے لیکن حکومت غلط مقاصد کے لئے آرڈیننس کا جائز فائدہ اٹھا رہی ہے۔ پہلے ہی صنعتیں بند کی گئی ہیں خاص خاص لوگوں کو صنعتیں لگانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ ایوان اس آرڈیننس کو مسترد کر ے تاکہ ملک مصیبت سے بچ سکے۔

سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہاکہ اس سے قبل بھی آرڈیننس لائے گئے ۔ آرڈیننس کو مسترد کرنے کی بجائے اس کو ملتوی کر کے مزید غور کی جائے۔ سینیٹر میر کبیر نے کہاکہ قرارداد کی حمایت کرتا ہوں ۔ آرڈیننس ہزار محرکات پر مشتمل ہے اور سوا سال اس کی تیاری میں لگا۔ یہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے خلاف ہے۔ سینیٹر نعمان و زیر نے کہاکہ اتنی جلدی میں آرڈیننس لایا گیا کہ تحریک انصاف ا س کی ممخالفت اور قرارداد کی حمایت کرتی ہے۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہاکہ آرڈیننس کے تحت عدالتوں کے دائرہ اختیار کو محدود کر دیا۔ اگر بل بھی ہوتا تو اس کی مخالفت کرتا۔ نیشنل کمانڈ اتھارٹی میں بھی عدالتوں کو بے دخل کر دیا گیا یہ حکومت کا رجحان ہے۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ آرڈیننس لا کر حکومت نے پارلیمنٹ کے ساتھ مجرمانہ بددیانتی کی ہے۔ پارلیمنٹ کو بے وقعت کر رہے ہیں۔

قرارداد کو سپورٹ کرتا ہوں۔ آرڈیننس کو مسترد کیا جائے۔ سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ 1224 صفحات پر مشتمل بل ہے کسی طور پر بھی بطور آرڈیننس نہیں آ سکتا ہے اس کو مسترد کیا جائے۔ چیئرمین سینٹ اس کو گینز بک میں درج کرایا جائے۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ 32 سال پرانا قانون کو تبدیل کیا گیا ہے اس کو پڑھنا چاہیے تاکہ پتہ چلے کہ بہتری آئی ہے۔

سینیٹر بغیر پڑھے ہی مسترد کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ معیشت کو مضبوط کرنے اور شرح نمو کو بڑھانے کے لئے اس کی فوری طور پر ضرورت تھی۔ تاجر کمیونٹی کا دیرینہ مطالبہ تھا۔ نیا کمپنیز قانون کمپنیوں کی ضروریات پوری کرے گا اور ان کو ریلیف فراہم کرے گا۔ بغیر پڑھے اس کو مسترد کرنا ایک نئی روایت ہے اور یہ مناسب نہیں ہے۔ پچھلی حکومتوں میں بھی آرڈیننس لائے گئے اگلے اجلاس میں تفصیل فراہم کروں گا۔

پاکستان میں بزنس کا ماحول بہتر ہو رہا ہے۔ تجارت میں بہتری آئی ہے۔ آف شور کمپنیوں کے معاملات اور غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف ایکشن کیلئے شقیں شامل کی گئی ہیں۔ شفافیت کے حوالے سے بل میں شقیں شامل ہیں۔ بغیر پڑھے اس کو مسترد نہ کیا جائے اور اس کو کمیٹی میں بحث کے لئے ریفر کیا جائے۔ حکومت سے مخالفت کیلئے اس کو مسترد نہ کیا جائے۔ اس کو پڑھ کر تجاویز دی جائیں اور حکومت شامل کرے گی۔ چیئرمین سینٹ نے قرارداد پر ووٹنگ کرائی قرارداد کی حمایت میں 50 جبکہ مخالفت میں 18 ووٹ ڈالے گئے۔ حکومت کی جانب سے مخالفت کے باوجود قرارداد کثرت رائے سے منظور کر لی گئی۔ …(رانا+و خ)