چیف جسٹس کے بارے میں غلط تاثر دینا ملک کیلئے درست نہیں ‘ وہ پاکستان کا ہے کسی جماعت کا نہیں،خدار ا ان کو متنازعہ نہ بنایا جائے،وزیر اعظم نے جھوٹ بولے ، نوازشریف نے ایوان میں بیان دیا کہ لندن کے اثاثوں کیلئے منی ٹریل دوبئی اور جدہ سے ہوا، سپریم کورٹ میں ان کے وکیل نے اس بیان کو سیاسی قرار د یا ‘ اگر قائد ایوان جھوٹ بولے تو ایوان کی کیا اہمیت رہ جائے گی،ایک وقت تھا کہ خلیجی حکمران پاکستانی حکمرانوں کے پیچھے چھپتے تھے ،اب یہ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کا وزیر اعظم قطر کے معمولی شہزادے کے خط کے پیچھے چھپ رہا ہے

ْقومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا ایوان میں نکتہ اعتراض پر اظہار خیال

بدھ 14 دسمبر 2016 22:24

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 14 دسمبر2016ء) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہاہے کہ ملک میں چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں کہ چیف جسٹس ان کا اپنا بندہ لگ گیا ہے ،یہ تاثر ملک کے لئے درست نہیں ،چیف جسٹس پاکستان کا ہے کسی جماعت کا نہیں،خدار ا انہیں متنازعہ نہ بنایا جائے، ‘ وزیر اعظم نے ایوان میں بیان دیا کہ لندن کے اثاثوں کے لئے منی ٹریل دوبئی اور جدہ سے ہوا جبکہ سپریم کورٹ میں ان کے وکیل نے بیان دیا کہ پارلیمنٹ میں دیا گیا وزیر اعظم کا بیان سیاسی تھا ، اگر قائد ایوان جھوٹ بولے تو ایوان کی کیا اہمیت رہ جائے گی، ا س کی قانونی اہمیت نہیں ‘ ایک وقت تھا کہ گلف کے حکمران پاکستانی حکمرانوں کے پیچھے چھپتے تھے اب یہ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کا وزیر اعظم قطر کے ایک معمولی شہزادے کے خط کے پیچھے چھپ رہا ہے۔

(جاری ہے)

وہ بدھ کو ایوان میں نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کر رہے تھے۔ سید خورشید شاہ نے کہا کہ یہ مقدس اور با اختیار ایوان ہے۔ سیاستدانوں کیلئے سیاسی معبہ ہے۔ ہم اس ایوان میں عوام کی امنگوں اور جذبوں کی ترجمانی کیلئے آتے ہیں۔ ایوان میں بولے گئے ایک ایک لفظ کی اہمیت ہوتی ہے اس کی کوکھ سے ادارے جنم لیتے ہیں۔ یہ قانون ساز ایوان ہے۔ بوجھل دل کے ساتھ کھڑا ہوں۔

سب کی خواہش ہے کہ ایوان کا رتبہ بلند ہو۔ بڑی قربانیوں کے بعد یہ ایوان قائم ہوا ہے۔ پارلیمنٹ کی تاریخ میں پہلی بار ایک حملہ ہوا ہے اس پارلیمنٹ پر یہ 2014ء میں حملہ ہوا تو ہم نے مقابلہ کیا۔ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کو بچانے کے لئے کردار ادا کیا۔ مجھے وہ کردار ادا کرنے پر بہت برا بھلا بھی کہا گیا مجھ پر ذاتی حملے کئے گئے۔ اب اس ایوان کے اندر سے حملہ ہوا ہے۔

وزیر اعظم نے ایوان میں لکھی ہوئی تقریر پڑھی جس میں مکمل تفصیل سے اپنے اثاثوں اور ٹریل آف منی بارے بتایا گیا۔ سپیکر نے کہا کہ آپ کی تحریک استحقاق عدالت میں زیر سماعت ہے اس لئے بحث نہیں ہو سکتی۔ خورشید شاہ نے کہا کہ یہ ایوان سپریم ہے۔ 20 کروڑ عوام کا نمائندہ ہے۔ حقائق پر بات کروں گا ۔ وزیر اعظم نے ایوان میں کہا کہ دبئی کے حکمران نے ہماری فیکٹری کا افتتاح کیا تھا۔

یہ فیکٹری اپریل 1980ء میں 3.37 ملین ڈالر میں فروخت ہوئی۔جس سے جدہ میں فیکٹری لگائی جو 2005ء میں 17 ملین ڈالر میں فروخت ہوئی۔ عدالت میں نواز شریف کے وکیل نے بیان دیا کہ اس کا پارلیمنٹ میں دیا گیا بیان سیاسی تھا۔ کیا سیاست صرف جھوٹ کا نام ہے۔ سیاست خدمت اور عبادت ہے‘ آمریت کی پیداوار قیادت سیاست کو جھوٹ سمجھتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے ساتھ اس سے زیادہ زیادتی نہیں ہو سکتی کہ یہاں منتخب وزیر اعظم جھوٹا بیان دے۔

اگر آمر اس طرح کا بیان دیتا تو دکھ نہیں ہوتا۔ ہم نے جمہوریت کی خاطر قربانیاں دیں مگر تقدس مجروح نہیں ہونے دیا۔ اگر قائد ایوان کہے کہ ایوان کے اندر کہی گئی بات کی اہمیت نہیں تو پھر کیا کیاجائے۔ اگر قائد ایوان جھوٹ بولے تو ایوان کی کیا اہمیت رہ جائے گی۔ بڑے بڑے شہنشاہ چلے جاتے ہیں صرف نیک نامی رہ جاتی ہے۔ اب باتیں ہو رہی ہیں کہ چیف جسٹس بھی ہمارا آ رہا ہے۔

سپیکر نے کہا کہ عدلیہ کو آزاد رہنے دیا جائے ۔ چیف جسٹس پاکستان کا ہے کسی جماعت کا نہیں انہیں متنازعہ نہ بنایا جائے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ میں چیف جسٹس پر انگلی نہیں اٹھا رہا صرف عوام کے احساسات کی بات کرتا ہوں کس کس کے منہ کو لگام دیں گے۔ میں اس سوچ کی مذمت کرتا ہوں۔ اس طرح کی چہ میگوئیاں لوگ کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ قومیں ایٹم بم اور توپوں سے تباہ نہیں ہوتیں لیکن جھوٹ قوموں کو تباہ کر دیتا ہے۔

ایک وقت تھا کہ گلف کے حکمران پاکستان کے حکمرانوں کے پیچھے چھپتے تھے آج پاکستان کا وزیر اعظم قطر کے ایک چھوٹے شہزادے کے خط کے پیچھے چھپ رہاہے۔ اس ملک میں اصل فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔ پارلیمنٹ کو ریٹ کا ٹیلہ نہ بنایا جائے کہ جو چاہے اسے گرا دے۔ جب (ن) لیگ پر برا وقت آیا تو پی پی پی نے نواز شریف کا ساتھ دیا (ن) لیگ کے لیڈر ملک سے چلے گئے۔

زرداری مشرف دور میں جیلیں کاٹتا رہا۔ ہم نے مشرف کی مخالفت اقتدار کے لئے نہیں کی بلکہ ایک منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیجنے پر مخالفت کی۔ کہا جائے گا کہ وکیل نے بیان دیا وکیل ہمیشہ اپنے موکل کی زبان بولتا ہے۔ آج تک وزیر اعظم کی طرف سے اپنے وکیل کے بیان کی تردید نہیں آئی جس کا مطلب ہے کہ وہ بیان درست ہے۔ ہمارے موشن کو زیر بحث لایا جائے۔ سپیکر نے کہا کہ یہ عدالت میں زیر التواء معاملہ ہے پارلیمنٹ میں زیر بحث نہیں لایا جا سکتا۔ خورشید شاہ نے کہا کہ یہ زیادتی ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے کہاکہ جو منظر ساری قوم نے دیکھا افسوس ناک ہے۔ شور ڈالنے اور گھیرا ڈالنے اور بات نہ کرنے دینے کا رویہ قابل مذمت ہے۔ یہ اکثریت کو روندنا چاہتے ہیں آمرانہ رویہ ہے۔ …(رانا+ع ع)