بھارتی پابندیاں اور دھوکے، آزاد کشمیراور پاکستان کی100 سے زائد خواتین ذہنی پریشانیوں میں مبتلا

سرحد پار اپنے والدین اور عزیز و اقارب کی یاد میں دن رات آنسو بہانے پر مجبور ہیہو گئیں، میڈیا رپورٹ

بدھ 14 دسمبر 2016 16:05

سرینگر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 14 دسمبر2016ء) گزشتہ6برسو ں میں شادی رچا کرمقبوضہ کشمیر پہنچنے والی آزاد کشمیراور پاکستان کی100 سے زائد خواتین ذہنی پریشانیوں میں مبتلاہو گئی ہیں اور سرحد پار اپنے والدین اور عزیز و اقارب کی یاد میں دن رات آنسو بہانے پر مجبور ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سابق مجاہدین کے ساتھ وادی آنے والی یہ خواتین کہتی ہیں کہ وہ ابھی بھی قانونی طور پر پاکستانی خواتین ہیںکیونکہمقبوضہ ریاست میں قیام کے کئی برس بعد بھی انہیں بھارت کی ہدایت پر مقبوضہ کشمیر کی شہریت نہیں دی گئی ہے۔

اتنا ہی نہیں بلکہ انہیں ہرجگہ پر صرف مایوسی ہی ہاتھ لگی ہے۔ان خواتین کا نہ صرف سکھ چین کھو گیا ہے بلکہ اپنوںکی دید کیلئے اٴْنہیں بھارتی سرکار نہ ہیپاسپورٹ فراہم کرتی ہے اور نہ ہی روٹ پرمٹ۔

(جاری ہے)

ایسی خواتین کا کہنا ہے کہ ان سے وعدہ کیا گیاتھا کہ اٴْن کی آبادکاری کے ساتھ انہیں روٹ پرمٹ بھی فراہم کیا جائے گا لیکن یہاں آکر سب کچھ الٹ کیا گیا ہے۔

اس صورتحال میںکئی خواتین نے نہ صرف خود سوزی کرنے کی کوشش کی بلکہ کئی ایک نے دوبارہ اٴْس پار غیر قانونی طوربھاگنے کی بھی کوشش کی ہے۔ اپنوں سے بچھڑ جانے کا غم انہیں کھائے جارہا ہے۔ غمو ں سے نڈھال یہ خواتین اب ذہنی طور مریض بن رہی ہیں۔آزاد کشمیرکے ہٹیاں بالا کی ایک خاتون، جو کپوارہ میں ایک شہری کے ساتھ شادی کر کے آئی ہے، اپنی قسمت کو کوستی رہتی ہے۔

وہ کہتی ہے یہاں آکر اگرچہ شروعات اچھی رہی تاہم بعد میں حکومت نے ان سے آنکھیں پھیر لیں۔ شہنازہ نامی ایسی ہی ایک خاتون کا کہنا ہے کہ وہاں سے جب ہمیں یہاں لایا گیا تب ہم سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ سال میں دو بار آر پار اپنے والدین سے ملنے کی اجازت دی جائے گی لیکن یہاں آکر تمام خواتین نے سرکار کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن وہاں سے مایوسی کے سوا ہمیں کچھ نہیں ملا۔

انہوں نے کہا کہ دو برس قبل حاجن سونہ واری میں آزادکشمیر کی رہنے والی شاہدہ نامی ایک خاتون نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔آزاد کشمیر سے وادی آنے والی خواتین صرف سرکار سے یہ مطالبہ کرتی ہیں کہ اٴْن کو روٹ پرمٹ فراہم کئے جائیں، تاکہ وہ اپنوں سے مل سکیں اور اس عرصہ کے دورا ن فوت ہونے والے افراد خانہ کی قبروں پرجاسکیں۔ کئی ایک خواتین کے ماں باپ اور دیگر قریبی رشتہ دار حالیہ برسوں میں فوت ہوچکے ہیں۔

کپوارہ کے محمد الطاف کے ساتھ شادی کر کے اپنے بچوں کے ہمراہ وادی آئی کوثر بانو نامی خاتون کہتی ہے کہ اٴْس کی نانی گذشتہ ماہ آزادکشمیر میں لقمہ اجل بن گئی۔ یہ خبر جب اسے ملی تو وہ گریہ زاری کرنے لگی لیکن یہاں اٴْس کی آواز سننے والا کوئی نہیں تھا۔کرناہ آنے والی خواتین میں نصرت بیگم اور شاہمالی بیگم بھی شامل ہیں۔انہوں نے تنگ آکرجنگ بندی لائن پار کرنے کی بھی کوشش کی لیکن سرحد تک پہنچتے ہی انہیں فوج نے گرفتار کر لیا۔

یہ خواتین کہتی ہیں کہ اٴْن کے رشتہ داروں میں کافی لوگ فوت ہو چکے ہیں، لیکن انہیں اپنے رشتہ داروں سے ملنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔بمنہ میں اپنے خاوند اور بیٹے کے ساتھ رہ رہی ایک پاکستانی خاتون کی کہانی بھی ایسی ہی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ یہاں اٴْن کے ساتھ دھوکہ ہوا۔اپنے رشتہ داروں کو یاد کرتے ہوئے یہ خاتون کہتی ہے کہ جب گھر والوں کی یاد آتی ہے تو من کرتا ہے اٴْن سے فون پر رابطہ کروں لیکن فون کرنے کی سہولیات بھی میسر نہیں ہے۔

مقبوضہ کشمیر سے پاکستان یا آزاد کشمیر فون رابطے بھارت نے منقطع کر رکھے ہیں۔ گھر والے فون کر کے حال پوچھتے ہیں۔خاتون نے کہا کہ پہلے دنوں میں ہر دوسرے تیسرے دن گھر والے رابطہ کرتے تھے لیکن اب آہستہ آہستہ وہ بھی ہمیں بھول گئے ہیں۔اسی طرح سینکڑوں ایسی خواتین بھی اپنوں کی جدائی میں آنسو بہارہی ہیں اوربھارت سے مطالبہ کرتی ہیں کہ انہیں اپنوں سے ملنے کا موقعہ فراہم کیا جائے۔

متعلقہ عنوان :