سپریم کورٹ کا جیلوں میں خواتین و بچوں کی حالت زار پر برہمی کا اظہار

انتظامیہ جیلوں کی حالت بہتر بنانے میں ناکام ہو چکی ،بہتری کیلئے کام کرنا سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے ،چیف جسٹس انورظہیر جمالی کے ریمارکس جیلوں میں اکثر قیدی اپنے خلاف مقدمات سے لا علم ہوتے ہیں، ذہنی مریضوں کو جیل میں رکھنا ظلم ہے،عاصمہ جہانگیر کا عدالت میں بیان

منگل 13 دسمبر 2016 16:31

سپریم کورٹ کا جیلوں میں خواتین و بچوں کی حالت زار پر برہمی کا اظہار
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 13 دسمبر2016ء) چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ انتظامیہ جیلوں کی حالت بہتر بنانے میں ناکام ہو چکی ہے ، اجتماعی ذمہ داری ہے کہ سب بہتری کے لئے کام کریں۔چیف جسٹس سپریم کورٹ انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے جیلوں میں قید خواتین اور بچوں کے حالات پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کی ۔

انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کا کہناتھا کہ ذہنی مریضوں کو جیلوں میں رکھنا ظلم ہے، وفاقی محتسب نے جیلوں اور تھانوں میں قید خواتین اور بچوں کی حالت زارپر سپریم کورٹ میں دو الگ الگ رپورٹ جمع کرادیں۔چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اجتماعی ذمہ داری ہے کہ سب بہتری کے لئے کام کریں، جسٹس اعجازالحسن کا کہنا تھا کہ جیلوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائز ہونے سے بہتری آئے گی۔

(جاری ہے)

عاصمہ جہانگیر نے عدالت کو بتایا کہ جیلوں میں قید اکثر قیدی اپنے خلاف مقدمات سے لا علم ہوتے ہیںجبکہ ذہنی مریضوں کو جیل میں رکھنا ظلم ہے۔سماعت کے دوران وفاقی محتسب نے تھانوں اور جیلوں کی حالت پر2 رپورٹ عدالت میں جمع کروائی ہیں، عدالت نے وفاقی محتسب کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ کچھ ادارے اور لوگ ہیں جو ملک میں کام کر رہے ہیں۔

وفاقی محتسب نے سپریم کورٹ میں پیش کردہ اپنی رپورٹ میں جیلوں کی نگرانی کے لئے ڈسٹرک اینڈ سیشن جج کی سربراہی میں کمیٹیاں تشکیل دینے کی سفارش کی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبائی محتسب کو نگراںکمیٹی کو مانیٹر کرنے کی اجازت ہونی چاہیے،صوبائی حکومتیں تمام ضلعوں میں نئی جیل تعمیر کریں،ہر جیل میں خواتین و بچوں کے لئے علیحدہ عمارت تعمیر کی جائے،نشے کے عادی اور ذہنی مریضوں کو علیحدہ کلینک میں منتقل کیا جائے،قیدیوں کے عزیز و اقارب کو طے شدہ تاریخ پر ملاقات کا حق دیا جائے،قیدیوں کو عدالتوں میں پیش کرنے کے لیے ٹرانسپورٹ کے نظام میں بہتری لائی جائے،قیدیوں کو مفت تعلیم اور ہنر سکھایا جائے۔

وفاقی محتسب نے پولیس نظام میں بہتری کے لئے سفارشات پر مبنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی ،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزارت داخلہ کے زیر انتظام ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دی جائیں،ہر درخواست پر مقدمہ درج کیا جائے،خواتین اور بچوں کو گرفتار کرنے سے پہلے سینئرپولیس حکام کی اجازت ضروری بنائی جائے،اختیارات کے ناجائز استعمال پر ایس ایچ او کا احتساب کیا جائے۔سپریم کورٹ نے وفاقی محتسب کی رپورٹس کی تعریف کرتے ہوئے تمام صوبائی حکومتوں کو سفارشات پر رائے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔