اسد رجیم کی مخالفت کے باوجود اقوام متحدہ میں کینڈاکی جنگ بندی کی قرارداد منظور

شام اورروس کی مخالفت،امریکا کی حمایت،حلب میں خوراک کا سنگین بحران ہے اور لوگ گھاس کھانے پر مجبور ہیں،خطاب

ہفتہ 10 دسمبر 2016 11:41

نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 دسمبر2016ء) شامی رجیم کی مخالفت کے باوجود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کینیڈا کی جانب سے پیش کی گئی شام میں جنگ بندی سے متعلق قرارداد 122 ووٹوں کی اکثریت کے ساتھ منظور کرلی گئی ۔ اس موقع پر بشار الاسد کے مندوب نے بعض عملی وجوہات کی بناء پر قرارداد پر رائے شماری روکنے کی بھرپور کوشش کی مگر ان کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکی ۔

میڈیارپورٹس کے مطابق شام میں فوری جنگ بندی اور حلب کے تمام علاقوں کا محاصرہ ختم کرنے کے مطالبے پر مبنی قرارداد کی کی حمایت میں ایک سو بائیس ممالک نے ووٹ ڈالے، 13ملکوں نے مخالفت کی جب کہ 36 ملکوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔اس موقع پر جنرل اسمبلی میں کینیڈا کے مندوب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حلب میں خوراک کا سنگین بحران ہے اور لوگ گھاس کھانے پر مجبور ہیں۔

(جاری ہے)

اگر اب بھی عالمی برادری نے ذمہ داری کا ثبوت نہ دیا تو حلب ایک بڑے قبرستان میں تبدیل ہوسکتا ہے۔کینیڈین مندوب نے حلب میں اسپتالوں اور شہری آبادیوں پر بمباری کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسپتالوں اور شہریوں کوتحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ شام میں جنگ سے متاثرہ فوجی علاقوں میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں کی جا رہی ہیں۔

اقوام متحدہ میں صدر بشارالاسد کے مندوب بشارالجعفری نے کینیڈا کے مسودہ قرارداد پر کڑی تنقید کی اور اپنے حامیوں کے ساتھ مل کرعملی بحث کی آڑ میں قرارداد کو ناکام بنانے کی مذموم کوشش کی گئی۔بشارالجعفری نے اعتراض کیا کہ قرارداد میں شامی حکومت کے بجائے’شامی رجیم‘ کی اصطلاح کیوں استعمال کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شام کے تنازع پر دنیا کی کھیل تماشا کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔

شامی مندوب نے کینیڈا کے مندوب کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور ساتھ ہی فائر بندی کی قرارداد کی کھل کر مخالفت کی۔ بشارالجعفری کا کہنا تھا کہ عالمی وفود نے ہماری سیاست کو چیلنج کیا ہے۔ کینیڈا بھی شام میں داعش کے خلاف اس عالمی اتحاد کا حصہ ہے جو خلاف قانون شام میں مداخلت کا مرتکب ہے۔بشارالجعفری نے الزام عاید کیا کہ مغربی ممالک مل کر شامی قوم کے مسائل میں اضافے کی سازش کررہے ہیں۔

شام میں دہشت گردی کے لیے آنے والے غیرملکی جنگجو بھی مغرب کے حمایت یافتہ ہیں۔ کینیڈا سمیت 100 ملکوں کے دہشت گرد شام میں لڑائی میں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسد حکومت غیر مشروط طور پر کسی غیرملکی دباؤ کے بغیر شامی شہریوں کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔ مگر ہم کوئی غیرملکی ایجنڈا قبول نہیں کریں گے۔جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی عرب کے مندوب عبداللہ المعلمی نے کہا کہ اگرچہ سعودی عرب نے شام میں جنگ بندی کے مطالبے پر مبنی قرارداد کی حمایت میں ووٹ ڈالا ہے مگر یہ قرارداد شامی عوام کے مصائب ختم کرنے کیلیے کافی نہیں ہے۔

المعلمی نے کہا کہ شام کے مسئلے کے جامع حل کے لیے جنرل اسمبلی کو ہنگامی اجلاس طلب کرکے موثر اقدامات کرنا چاہئیں۔ شام میں شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ کینیڈا کی قرارداد میں موجود بعض نقائص پر بات چیت کی جائے گی۔ اس وقت سب سے اہم بات شام میں اسد رجیم کے جرائم کی روک تھام کرنا ہے۔جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یورپی یونین کے مندوب نے حلب میں عام شہریوں پر اسد رجیم کی فوجی کارروائیوں کی شدید مذمت کی۔

انہوں نے کہا کہ حلب میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں اور اسد رجیم جنگی جرائم کی مرتکب ہے۔یورپی یونین کے مندوب نے اپنے خطاب میں اسد رجیم سمیت شام میں جنگی جرائم کے مرتکب عناصر کے خلاف بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمات قائم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے حلب سمیت جنگ سے متاثرہ تمام شامی شہروں میں فوری امداد کی فراہمی کی بھی اپیل کی اور کہا کہ متاثرہ شہریوں تک امداد کی رسائی روکنے والے انسان دشمن ہیں۔

یورپی یونین کے مندوب نے شام کے تنازع کے پرامن اور منصفانہ حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے تنازع کو سیاسی انداز میں حل کرنے کا مطالبہ کیا۔جنرل اسمبلی میں شام میں فوری جنگ بندی کے مطالبے پر مبنی کینیڈین قرارداد پر روس نے سخت رد عمل ظاہر کیا۔ اس موقع پر روس نے قرارداد کی مخالفت کی اور کہا کہ قراداد میں دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے تمام جرائم کا ملبہ بشارالاسد پر ڈال کر یک طرفہ کارروائی کی جا رہی ہے۔

روس کے مشیر فیتالی چورکین نے کہا کہ ان کا ملک شام میں خانہ جنگی کے خاتمے اور تنازع کے سیاسی اور سفارتی حل کے لیے کوشاں ہے مگر کوئی بھی غیر متوازن کوشش کوشش اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب شام میں جاری دہشت گردی پر بات کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم امریکا کے ساتھ مل کر شام میں امن بات چیت کی بحالی کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ بات چیت اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونی چاہیے۔

اس پر امریکا اور روس دونوں کا اتفاق رائے ہے۔امریکا نے کینیڈا کی قرارداد کی حمایت کی مگر ساتھ ہی کہا کہ یہ قرارداد مثالی نہیں ہے تاہم موجودہ بحران کے حل کی طرف اہم پیش رفت ہے۔امریکی مندوب کا کہنا تھا کہ حلب کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں ملوث روس اور اسد رجیم کو نہتے شہریوں پر مظالم تسلیم کرنا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کی مسلسل وارننگ کے باوجود حلب میں امدادی کارروائیوں کی بحالی میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ امریکی مندوب نے سوال اٹھایا کہ حلب سے نقل مکانی کرنے والے شہری اغواء کیوں کیے جا رہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :