چترال سے اسلام آباد آتے حویلیاں کے علاقے میں حادثہ کا شکار پی آئی اے طیارہ میں موجود 42مسافر اور عملہ کے جاں بحق ہونے کی آخری اطلاعات تک لوگ معجزے کے منتظر

بدھ 7 دسمبر 2016 23:23

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 07 دسمبر2016ء) چترال سے اسلام آباد آتے ہوئے حویلیاں کے علاقے میں حادثہ کا شکار ہونے والا پی آئی اے کے طیارہ میں موجود 42مسافر اور طیارے کے عملہ کے جاں بحق ہونے کی آخری اطلاعات تک لوگ قدر ت کے معجزے کے منتظر رہے کہ جہاز میں سوار کسی مسافر کے زندہ بچ جانے کی اطلاع مل جائے۔ مگر بے سود شام گئے طیارہ کو پیش آنے والے حادثہ کے وقت شام کے دھندکے پھیل چکے تھے اور پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث امدادی ٹیموں کو کام کرنے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔

پی آئی اے کے بدقسمت طیارہ میں سوار 3غیرملکیوں سمیت معروف گلکار جنید جمشید اُن کی اہلیہ اور جہاز کے عملہ کے 5افراد بھی شامل تھے۔ ایک بات جو ماہرین کے لئے تشویش کا سبب بنی رہی کہ طیارہ کو 4بجے تک اسلام آباد کے ائرپورٹ پر اترنا تھا مگر وہ 4بجکر 42منٹ پر چترال میں موجود تھا۔

(جاری ہے)

جہاز کا رابطہ کنٹرول سے منقطع ہونے کے بعد ریسکیو ٹیموں نے قبل علاقے کے مکینوں نے اپنے طور پر امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہوئے جہاز میں لگی ہوئی آگ پر قابو پانے کی کوششیں کیں۔

معروف گلوکار جنید جمشید اور ان کی اہلیہ نیہا جمشید حادثے میں شہید ہو گئے۔ جنید جمید تبلیغ اسلام کے لئے چترال گئے ہوئے تھے اور اُن کی زندگی کے آخری ٹویٹ میں انہوں نے کہا ہے کہ چترال دنیا کی دھرتی پر ایک جنت نمونہ ہے اور وہ اللہ کی راہ میں کام کرنے کے لئے چترال آئے ہوئے ہیں۔ حادثہ کے بعد مختلف گلوکاروں جن میں وارث بیگ بھی شامل ہیں نے کہا ہے کہ جنید جمید ایک دین دار اور مخلص انسان تھا اُس نے اپنی زندگی میں درجنوں لوگوں کو حج اور عمرے کی سعادت کے لئے اپنے خرچہ پر بھیجا۔

وہ ایک لاجواب شخصیت کا حامل شخص تھا۔ اُن کی شخصیت کے حوالے سے پاکستان کے معروف گلکار اور سکالر ابرار الحق نے کہا کہ جنید جمشید اُن کے قریبی دوستوں میں تھا۔ اُس کا خلاء کافی عرصہ پورا نہیں ہو پائے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ شرافت کا نمونہ اور ایک بے مثال انسان دوست تھا۔ جنید جمشید اور ان کی اہلیہ کے جاں بحق ہونے کی اطلاع کی تصدیق مفتی نعیم نے کی ہے۔

ایبٹ آباد کے علاقے حویلیاں میں پی آئی اے کو پیش آنے والا حادثہ انتہائی متنازعہ بن گیا۔ ماہرین کے مطابق جب جہاز کا ایک انجن خراب تھا تو اُسے چترال سے اُڑایا ہی کیوں گیا جبکہ اے ٹی آر کا طیارہ نمبر661 ایسا جہاز ہے جو اس سے قبل اس کے درجنوں جہاز بے کار ہوکر گرائونڈ ہو چکے ہیں۔ اس حوالے سنیٹر رحمن ملک نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ ناکارہ طیارہ کب تک لوگوں کی جانیں لینے کے لئے استعمال کیا جاتارہے گا۔ طیارہ کو پیش آنے والے حادثہ کی مکمل تحقیقات ہونا ازحد ضروری ہیں اور ذمہ داران کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔ (سعید)

متعلقہ عنوان :