عدالت عالیہ لاہور کے مرحوم جج صاحبان اور قانون دانوں کی خدمات پر روشنی ڈالنے کیلئے فل کورٹ تعزیتی ریفرنس

بدھ 7 دسمبر 2016 22:50

لاہور۔7 دسمبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 07 دسمبر2016ء) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ، لاہور مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ کی زیر صدارت عدالت عالیہ لاہور کے مرحوم جج صاحبان اور قانون دانوں کی خدمات کو سراہنے اور ان پر روشنی ڈالنے کیلئے فل کورٹ تعزیتی ریفرنس منعقد ہوا۔ لاہور ہائی کورٹ کی ایک سو پچاس سالہ تقریبات کے حوالے منعقدہ مذکورہ ریفرنس میں لاہور ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس شاہد حمید ڈار، مسٹر جسٹس محمد یاور علی، مسٹر جسٹس محمد انوار الحق، مسٹر جسٹس سردار محمد شمیم احمد خان، مسٹر جسٹس مامون رشید شیخ اور مسٹر جسٹس محمد قاسم خان سمیت لاہور ہائی کورٹ کی پرنسپل سیٹ پر کام کرنے والے دیگر فاضل جج صاحبان، مرحوم جج صاحبان اور وکلاء کی فیملیز شریک تھے جبکہ اس موقع پر وکلاء کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔

(جاری ہے)

کورٹ نمبر ون میں سابق چیف جسٹس جاوید اقبال، سابق چیف جسٹس عبدالشکور الاسلام،سابق چیف جسٹس راشد عزیز خان،سابق چیف جسٹس افتخار حسین چودھری،سابق جج صاحبان میں مسٹر جسٹس چودھری اعجاز احمد ،مسٹر جسٹس کے ایم اے صمدانی، مسٹر جسٹس میاں نثار احمد، مسٹر جسٹس عبدالغفور خان لودھی، مسٹر جسٹس محمد حسن سندھڑ، مسٹر جسٹس گل زریں کیانی،مسٹر جسٹس آصف جان، مسٹر جسٹس میاں غلام احمد، مسٹر جسٹس عبدالمجید ٹوانہ، مسٹر جسٹس امیر عالم خان، مسٹر جسٹس شیخ عبدالمنان ،مسٹر جسٹس محمد غنی، مسٹر جسٹس شیخ امجد علی،مسٹر جسٹس ارشد محمود تبسم اور مسٹر جسٹس شیخ عبدا رزاق، کے نام ہیںجبکہ مرحوم قانون دانوں میں محمد الیاس خان ایڈووکیٹ، خواجہ سلطان احمد ایڈووکیٹ،حاکم قریشی ایڈووکیٹ، خواجہ سعید الظفرایڈووکیٹ، میا ں اقبال حسین کلانوری ایڈووکیٹ ،ایس ایم مسعود ایڈووکیٹ، سردار محمد اسحاق خان ایڈووکیٹ اور اعجاز حسین بٹالوی ایڈووکیٹ کی یاد میں تعزیتی ریفرنس منعقد ہوا۔

فل کورٹ تعزیتی ریفرنس سے اظہار خیال کرتے ہوئے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کی ایک سو پچاس سالہ تقریبات عدالت عالیہ لاہور کے مرحوم جج صاحبان اور قانون دانوںکی اس ادارے کیلئے خدمات کو خراج تحسین پیش کئے بغیر مکمل نہیں ہو سکتیں۔ انہوں نے کہا کہ اس قبل عدالت عالیہ میں تعزیتی ریفرنس سات سال پہلے منعقد ہوا تھا ۔

چیف جسٹس نے ریفرنس پڑھتے ہوئے کہا کہ مرحوم جسٹس کے ایم اے سمدھانی13 مئی1932 کو پیدا ہوئے انہوں نے سول سروسز جوائن کیا اور بعد میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے عہدے پر فائز ہوئے، وہ 1972 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے اور 1981 تک اپنی ذمہ داریاں اداکرتے رہے، انہوں نے 1981 کے پی سی او تحت کے حلف لینے سے انکار کیا اور ریٹائرڈ ہوگے، فاضل جج گیارہ اپریل انیس سو تیرہ کو اس دنیا فانی سے رخصت ہوگئے۔

فاضل چیف جسٹس نے جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ پانچ اکتوبر انیس سو چوبیس کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، آپ دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں فلسفہ کے پروفیسر رہے ، ڈاکٹر جاوید اقبال تیس جولائی انیس سو اکہتر کو لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے اور انیس سو پچاسی میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدہ فائز ہوئے، ڈاکٹر جاوید اقبال کو پانچ اکتوبر انیس چھیاسی کو سپریم کورٹ آف پاکستان کا جج تعینا ت کردیا گیا، ڈاکٹر جاوید اقبال پچھلے سال اس دنیافانی سے کوچ کر گئے۔

جسٹس (ر) عبد الغفورخان لودھی نو جون انیس سو اٹھہتر کو لاہور ہائی کورٹ کا حصہ بنے قبل ازیں وہ مختلف جوڈیشل پوسٹوں پر فائز رہے، وہ رواں برس چوبیس فروری کو انتقال کر گئے ۔ جسٹس عبد الشکور السلام کے بارے میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ انیس سو چو ہتر کو لاہور ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج بنے اس قبل وہ بارہ برس سے زائد پنجا ب بار کونسل کے ممبر رہے، مرحوم انیس سو اٹھاسی کو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے اور پھر انہیں انیس سو نواسی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا جج بنا دیا گیا۔

جسٹس محمد حسن سندھڑبہاولپور میں پیدا ہوئے، انہوںنے بطور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عدلیہ میں شمولیت اختیار کی اور انیس سو ستترکو لاہور ہائی کورٹ بنچ کا حصہ بنے، فاضل جج انیس سو اکاسی میں ریٹائرڈ ہوئے۔ جسٹس میاں نثار احمد مرحوم کے حوالے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ انیس سو اناسی کو لاہور ہائی کورٹ کا حصہ بنے لیکن دس جولائی انیس سو اسی کو انہیں اس عہدہ سے سبکدوش ہونا پڑا جب انہوںنے غیر آئینی حکومت کے زیر اثر حلف لینے سے انکار کیا، میاں نثارسپریم کورٹ آف پاکستان کے نامزد چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے والد گرامی تھے۔

جسٹس گل زریںمرحوم نے انیس سو تریسٹھ میں وکالت شروع کی اور انیس سو چوراسی سے انیس سو پچانوے تک لاہور ہائی کورٹ کے جج رہے، مرحوم کے بارے مشہور ہے کہ وہ عید کی چھٹیوں میں بھی اپنے دفتر میں بیٹھے کام کرتے نظر آتے اوربطور وکیل وہ بہت کم فیس وصول کیا کرتے تھے۔ جسٹس گل زریں رواں برس پانچ جون کو انتقال کر گئے تھے۔سابق چیف جسٹس راشد عزیز مرحوم انیس سوستاسی میں لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے، قبل ازیں وہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب تھے، انہیں انیس سو ستانوے میں چیف جسٹس کے عہدہ پر فائز کیا گیاجو چار فروری 2000 تک اس عہدہ پر فائز رہے۔

جسٹس عبد المجید ٹوانہ یکم جنوری انیس سو تینتیس کو پیدا ہوئے اور انیس سو بہتر میں جوڈیشل سروسز جوائن کیا، وہ انیس سو اٹھاسی کو ہائی کورٹ کے جج بنے۔ جسٹس میاں غلام احمدانیس سو بانوے سے انیس سو پچانوے تک لاہور ہائی کورٹ کے جج رہے جبکہ جسٹس شیخ عبد المنان بھی انیس سو بانوے میں لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے، قبل ازیں وہ ڈپٹی اٹارنی جنرل تھے۔

جسٹس محمد آصف جان انیس سو چورانوے میں لاہور ہائی کور ٹ کے ایڈیشنل جج بنے اور دو ہزار ایک تک اس عہدہ پر فائز رہے، وہ دو ہزار بارہ میں وفات پا گئے۔ جسٹس امیر عالم خان انیس سو اٹھہتر میں لاہو ربار جبکہ انیس سو چورانوے میں لاہور ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر رہے، وہ انیس سو چورانوے میں لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے تھے۔سابق چیف جسٹس افتخار حسین چودھری کے حوالے سے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے طویل ترین چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہنے والے جسٹس افتخار حسین چودھری دوہزار دو سے دو ہزار سات تک اس عہدہ پر فائز رہے، چیف جسٹس ہائوس کی تزئین و آرائش، ضلعی عدلیہ میں کمپیوٹرآئزیشن اور ایئر کنڈیشننگ کا سہرا بھی انہیں کے سر ہے۔

فاضل چیف جسٹس پانچ جون دوہزار پندرہ کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس شیخ عبد الرزاق مرحوم انیس سو چھیانوے سے دو ہزار دو تک لاہور ہائی کورٹ کے جج رہے، چودھری اعجاز احمد مرحوم نے انیس سو ستانوے میں لاہور ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج کا حلف لیا، دو ہزار بار ہ میں وفات پانے والے جسٹس محمد غنی مرحوم دو ہزار تین میں اس ادارے کا حصہ بنے جبکہ جسٹس ارشد محمود تبسم نے دو ہزار تیرہ میں لاہور ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج کا حلف لیا اور ستائیس دسمبر دو ہزار پندرہ کو اس دنیا فانی سے رخصت ہوگئے۔

چیف جسٹس سید منصو رعلی شاہ نے معروف قانون دانوںکے اعزاز میں بھی ریفرنس پڑھے جو اس وفات پا چکے ہیں ان میں ایڈووکیٹ حاکم قریشی، خواجہ سلطان احمد، اعجاز حسین بٹالوی، محمد الیاس خان، میاں اقبال حسین کلانوری، ایس ایم مسعود،خواجہ سعید الظفر اور سردار محمد اسحاق خان شامل ہیں۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ آج کا تعزیتی ریفرنس سانحہ کوئٹہ میں شہید وکلاء کو یاد کئے بغیر مکمل نہیں ہوگا، انہوںنے کہا کہ مذکورہ سانحہ کے بعد انہوںنے عدالت عالیہ لاہور کے سینئر جج صاحبان کے ہمراہ کوئٹہ کا دورہ کیا اور دکھ کی گھڑی میں اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلایا۔

فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ کے شہداء اور زخمیوں کے لئے لاہور ہائی کورٹ اور ضلعی عدلیہ میں فنڈ قائم کیا گیا ، جس میں اسی لاکھ روپے سے زائد رقم ہوئی۔ قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر رانا ضیاء عبد الرحمان، جنرل سیکرٹری سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن آفتاب احمد باجوہ، پنجاب بار کونسل کے چیئر مین ایگزیکٹو کمیٹی ممتاز مصطفی، وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل چودھری محمد حسین، وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل ڈاکٹر فروغ نسیم، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شکیل الرحمان خان،ڈپٹی اٹارنی جنرل عمران عزیز خان اور ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل خرم خان نے بھی مذکورہ بالا مرحوم ججز اور وکلاء کی یاد میں ریفرنس پڑھے۔

متعلقہ عنوان :