ترقی پزیر ممالک بڑھتے درجہ حرارت کے اثرات کا مقابلہ کرنے کی کم اہلیت کی وجہ سے زیادہ نقصانات سے دوچار ہیں، مقررین کا اظہار خیال

بدھ 7 دسمبر 2016 22:31

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 07 دسمبر2016ء) ترقی پزیر ممالک بڑھتے درجہ حرارت کے اثرات کا مقابلہ کرنے کی کم اہلیت کی وجہ سے زیادہ بڑے نقصانات سے دوچار ہیں،تنازعات کی وجہ سے جنوبی ایشیاکے عوام تعاون کے ثمرات سے محروم ہیں،دیہی علاقوں میں غذائی عدم تحفظ اندرونی ہجرت کی بڑی وجہ ہے، ہمیں بنیادی ڈھانچے اور صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کے ذریعے انسانی زندگیوں میں بہتری لانے پر توجہ دینی ہو گی ان خیالات کا اظہار مقررین اورماہرین پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی ) کی19 ویںسالانہ کانفرنس کے دوسرے روز کیا۔

کانفرنس کے دوسرے روز موسمیاتی تبدیلیوں، قدرتی آفات کے خطرات کے مقابلے، جنوبی اشیا میں امن و سلامتی، برابری پر مبنی شہریت اور شہری حقوق، جنگ اور آفت زدہ علاقوں میں غذائی تحفظ کی صورت حال کے علاوہ صحت، توانائی، معیشت اور خدمات کے موضوعات پر گفتگو کی الگ الگ نشستوں کے دوران مختلف ترقیاتی شعبوں کے ماہرین نے اظہار خیال کیا۔

(جاری ہے)

جنوبی ایشیا میںتنازعات اور خدمات کی فراہمی میں رکاوٹیںکے موضوع پر منعقدہ نشست سے خطاب کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما افراسیاب خٹک نے مزید کہا کہ وہ قبل از بجٹ مشاورتی عمل کا بھی حصہ ہیں اور اس بنیاد پر دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ سماجی شعبے کے لیے کام کر نے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ خطے میں امن کے فروغ کے لیے پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لینا ناگزیر ہو چکا ہے افراسیاب خٹک نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت کا تصور ادھورا ہے۔

۔نشست کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے ایس ڈی پی آئی کے ڈاکٹر شہر یار طورونے انسانی ترقی کی صورت حال کے مختلف پہلوؤں کو اجا گر کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کی جانب سے شہریوں کو تعلیم ، صحت اور دوسرے شعبوں میں خدمات کی بہتر فراہمی کی ضرورت ہے۔نشست کے دوران شیرین گل، عدنان شیر اور سعادت علی بھی اظہار خیال کیا۔جنوبی ایشیا اور افریقہ کے نیم بارانی علاقوں میں روزگار کی صورت حال سے متعلق نشست سے خطاب کرتے ہوئے ماہرین نے کہا کہ دیہی علاقوں میں غذائی عدم تحفظ اندرونی ہجرت کی بڑی وجہ ہے۔

کاشف سالک، زہانہ، حسن رضوی اور ڈاکٹر عالیہ ایچ خان نے موضوع کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے کئی ممالک کو اس وقت اندرونی ہجرت کے بحران کا سامنا ہے جس کی بنیادی وجہ مخصوص علاقوں میں وسائل کا میسر نہ ہونا ہے۔ جنگ زدہ علاقوں میں محفوظ روزگار سے متعلق ایک اور نشست سے خطاب کرتے ہوئے سیکیور لائیولی ہڈ ریسرچ کنسورشیم (ایس ایل آر سی) کے پال ہاروے نے کہا کہ لوگ کئی وجوہات کی بنیاد پر جنگ زدہ علاقوں کو چھوڑنے سے گریز کرتے ہیں جن میں ان کے ثقافتی معمولات بھی شامل ہیں۔

ایس پی او کے نصیر میمن نے کہا کہ خطے کے ممالک کو تعلیم پر خرچ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ جنوب جنوب تجارت کے معروف داعی ماجد عزیز نے کہا کہ ہم اپنے نجی شعبے کو باہمی تجارت کے فروغ میں مؤثر کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں دے رہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کے گنتر سگیا یاترو نے کہا کہ سی پیک پاکستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے تاہم اس سے مستفید ہونے کے لیے دوسرے درپیش مسائل کا حل کیا جانا ضروری ہے۔ ماجد عزیز، ہارون شریف اورفوزیہ نسرین نے کہا کہ خطے میں تعاون کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ درپیش رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔