قابل تجدید توانائی کے شعبے کو توجہ دی جائے،میاں زاہد حسین ،عبدالرحیم جانو

ہواسے 50 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے، سولر پاور کا پوٹینشل لامحدود ہے،میاں انجم نثار

بدھ 7 دسمبر 2016 18:20

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 دسمبر2016ء) بزنس مین پینل اور پاکستان بزنس گروپ الائنس کے چیئر مین اورسابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین ، صدارتی امیدوارعبدالرحیم جانو ،سینیئر نائب صدر کے امید وارمیاں انجم نثار نے کہا ہے کہ قابل تجدید توانائی کے شعبے کو توجہ دی جائے۔اس سلسلے میں ونڈ اور سولر انرجی کو زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے جسکی قیمت اب تیل سے پیدا کی جانے والی بجلی کے برابر ہو گئی ہے۔

ونڈ پاور کے ذریعے کم از کم50 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے شمسی توانائی کا پوٹینشل لامحدود ہے۔ ان ذرائع کو توجہ دینے کے بجائے مسلسل ضائع کیا جا رہا ہے۔ ہوا اور سورج کے ذریعے حاصل ہونے والی توانائی پر توجہ دینے سے ملک توانائی کے معاملے میں خود کفیل ہو سکتا ہے جبکہ توانائی برآمد بھی کر سکتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ بعض اندازوں کے مطابق اگلے چودہ برس میں دنیا میں انرجی مکس میں قابل تجدید توانائی کا حصہ دگنا ہو جائے گا ۔

پاکستان اس سلسلے میں ڈنمارک کے تعاون سے کام کر سکتا ہے جہاں 43 فیصد بجلی قابل تجدیدذرائع سے پیدا کی جا رہی ہے اور اگلے چار سال میں 70 فیصد بجلی انہی ذرائع سے پیدا کی جائے گی۔ اسکے علاوہ برازیل سے تعاون کیا جا سکتا ہے جہاں توانائی کی 42 فیصد ضروریات قابل تجدید ذرائع سے حاصل کی جا رہی ہیں ۔ توانائی کے شعبے میں ترقی نے برازیل کو دنیا کی نویں بڑی معیشت بنا دیا ہے جسکا جی ڈی پی 1.7 کھرب ڈالر ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت دنیا کی بیس فیصد بجلی قابل تجدیدذرائع سے بنائی جا رہی ہے اور تمام ترقی یافتہ ممالک اس ضمن میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کیلیئے کوشاں ہیں مگر پاکستان میں صورتحال مایوس کن ہے۔1985 تک پاکستان کی 67 فیصد ضروریات پن بجلی سے پوری کی جا رہی تھیں مگر اسکے بعد مختلف حکومتوں نے تیل سے بجلی بنانے کے مہنگے آپشن کو اختیار کیا جس سے زرعی و صنعتی پیداوار اور برآمدات مہنگی ہو گئیں اور بجٹ کو متوازن بنانے کیلیئے بھاری قرضے لینا پڑے۔ تیل سے بجلی بنانے اور پن بجلی کو مسلسل نظر انداز کرنے کی پالیسی کی وجہ سے ملک کے انرجی مکس میں ہائیڈرو پاور کا شئیر 30 فیصد رہ گیا ہے جس میں مزید کمی آ رہی ہے۔

متعلقہ عنوان :