گز شتہ3سال میں ریلوے کی 3555ایکٹر اراضی واگزار کرائی، 4202 ایکٹر اراضی پر ابھی بھی قبضہ ہے، گزشتہ تین سال میں حکومتی اہداف سے مسلسل زیادہ کما رہے ہیں ،2015-16میں 30 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 36 ارب کا منافع کمایا ، رواں سال 37 ارب روپے سے زیادہ کمائیں گے ، ریلوے کے پاس موجود 440 انجنوں میں سے صرف 280 قابل استعمال حالت میں ہیں، ریلوے ملازمین کی تعداد کم ہو کر 76019 ہوگئی ہے، مال بردار ویگنز کی تعداد 15615 ہے، پبلک اکاونٹس کمیٹی کو وزارت ریلوے حکام کی بریفنگ

گزشتہ 3سالوں میں جتنے ریلوے حادثات ہوئے اتنے گزشتہ10سال میں بھی نہیں ہوئے، نئے پل بنانے کی بجائے پرانے ٹریک اور پلوں کی مرمت کروائی جائے ورنہ مستقبل میں بھی ایسے حادثاث ہونگے، چیئرمین پی اے سی خوشید شاہ کے ریمارکس ایک مافیا ریلوے کو بند کر کے پرائیویٹ سیکٹر کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہے،لاہور کے ڈرائی پورٹ کو تباہ کردیاگیا ،آج بھی افسران کے نام پر کئی بو گیاں خالی چلائی جا رہی ہیں، روحیل اصغر پی اے سی نے ریلوے کی ہائوسنگ کالونیوں اور زمین کی لیز سے متعلق انکوائری رپورٹ ، رائل پام کلب اور اراضی سے متعلق تفصیلی بریفنگ آئندہ اجلاس میں طلب کر لی

بدھ 7 دسمبر 2016 17:56

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 07 دسمبر2016ء) قومی اسمبلی کی پبلک اکاونٹس کمیٹی کو وزارت ریلوے حکام نے آگاہ کیا ہے کہ گز شتہ3سال میں ریلوے کی 3555ایکٹر اراضی واگزار کرائی، 4202 ایکٹر اراضی پر ابھی بھی قبضہ ہے، گزشتہ تین سال میں حکومتی اہداف سے مسلسل زیادہ کما رہے ہیں،ماضی میں ہم نے دیے گئے ہدف سے کم کمایا گزشتہ تین سالوں میں ہدف سے زیادہ کمایا ہے،2015-16 میں ہدف تیس ارب تھا جس کے مقابلے میں 36 ارب کا منافع کمایا ، رواں سال 37 ارب روپے سے زیادہ کمائیں گے ،1999میں ریلوے ٹریک کی کا مجموعی لمبائی 11526کلومیٹر،2016میں 11778کلومیٹر ہے،99میں ریلوے سٹیشن 689،2016 میں 558ہیں،گزشتہ پانچ سال میں 131 ریلوے اسٹشنز کم ہوئے ، 1999میں ریلوے انجن 596 تھے،2016 میں ریلوے کے پاس مجموعی طور پر 440 انجن ہیں جن میں 280 قابل استعمال حالت میں ہیں،1999میں ریلوے ملازمین کی تعداد 95162 تھی،2016میں ریلوے ملازمین کی تعداد کم ہو کر 76019 ہوگئی ہے،1999 میں مال بردار ویگنز کی تعداد 23906 تھی جو اب کم ہو کر 15615 ہے،چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ نے کہا کہ گزشتہ 3سالوں میں جتنے ریلوے حادثات ہوئے اتنے گزشتہ 10سال میں بھی نہیں ہوئے،آپ پرانے پلوں کی مرمت کی بجائے نئے پل بنانے کی بات کر رہے ہیں ،پرانے ٹریک اور پلوں کی مرمت کروائیں ورنہ مستقبل میں بھی ایسے حادثاث ہونگے، شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ آپ کے اندر ایک مافیا ہے جو ریلوے کو بند کر کے پرائیویٹ سیکٹر کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہے،لاہور کے ڈرائی پورٹ کو آپ لوگوں نے تباہ کیا،آج بھی افسران کے نام پر کئی بو گیاں خالی چلائی جا رہی ہیں ،ریلوے افسران خود کئی کنال کے گھروں میں رہتے ہیں،غریبوں کی ادھے مرلے کی دوکان اور ایک مرلے کا گھر آپ کو تکلیف دیتی ہے، پبلک اکائونٹس کمیٹی نے ریلوے کی ہاوسنگ کالونیوں اور زمین کی لیز سے متعلق انکوائری رپورٹ ، رائل پام کلب اور اراضی سے متعلق تفصیلی بریفنگ آئندہ اجلاس میں طلب کر لی۔

(جاری ہے)

قومی اسمبلی کی پبلک اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس بدھ کو چیئرمین سید خورشید شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا جس میں ممبران کمیٹی شیخ روحیل اصغر، محمود خان اچکزئی، شاہدہ اختر ، میاں عبد المنان، جنید انوار چوہدری، ارشاد لغاری ، رشید گوڈیل، وزارت ریلوے، خزانہ، نیب اور آڈٹ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں وزارت ریلوے کے مالی سال 2013-14کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا،وزارت ریلوے کی جانب سے گذشتہ پانچ سال کی کارکردگی پرکمیٹی کو بریفنگ دی گئی۔

جس میں بتایا گیا کہ 1999میں ریلوے ٹریک کی کا مجموعی لمبائی 11526کلومیٹر تھی ،2016میں 11778کلومیٹر ہے، 1999میں ریلوے سٹیشن 689تھے، 2016 میں 558ہیں،گزشتہ پانچ سال میں 131 ریلوے اسٹشنز کم ہوئے ، 1999میں ریلوے انجن 596 تھے،2016 میں ریلوے کے پاس مجموعی طور پر 440 انجن ہیں جن میں 280 قابل استعمال حالت میں ہیں،1999میں ریلوے ملازمین کی تعداد 95162 تھی،2016میں ریلوے ملازمین کی تعداد کم ہو کر 76019 ہوگئی ہے،1999 میں مال بردار ویگنز کی تعداد 23906 تھی جو اب کم ہو کر 15615 ہے۔

کمیٹی کے ممبران نے ریلوے اسٹیشنز کی تعداد میں کمی پر متعداد سوالات اٹھا دئیے۔ چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ نے کہا کہ ایشیاء کی سب سے بڑی لوکو موٹو فیکٹری پاکستان میں ہے اس کی اتنی خراب حالت کیوں اور کیسے ہے، 130 ریلوے اسٹیشنز کیوں کم ہوئے۔میاں عبد المنان نے کہا کہ آپ نے اسٹیشن بند کیے ہیں پہلے آپ کہتے ہیں کہ آپریشنل بند ہوئے۔

ریلوے حکام نے کہا کہ بلوچستان میں بہت سے اسٹیشنز بند ہیں، آٹھ اسٹیشنز کلوزسیکشن کی وجہ سے بند ہوئے۔ میاں عبدالمنان نے کہا کہ آپ سے سیدھا سوال پوچھا آپ چکری سے گھوم کر آگئے،اسٹیشن کو عوام کی فلاح کیلئے بنا یا گیا ہے،پتوکی اسٹیشن بند کیا گیا وہاں کے لوگ کہاں جائیں گے ، کراچی سے روہڑی تک ٹرینز چل رہی ہیں لیکن نہ رکنے سے عوام کو ان کا فائدہ نہیں۔

چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ نے ریلوے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ روہڑی پر ہر گاڑی رکتی ہے آپ کو مثال دی گئی ہے،بات بلوچستان کے ان علاقوں کی ہے جہاں چلتی ٹرینیں بند ہو گئیں ،انگریز د ور کے بعد روڈز بڑھنے سے بھی ریلوے ٹریکس میں کمی آئی، کہا جاتا ہے کہ ریلوے میں بہتری آئی ہے لیکن کارکردگی یہ ہے کہ 1999 میں تقریبا چھ سو لو کو موٹیوز تھے آج دو سو اسی ہیں،1999 میں آبادی تیرہ کروڑ تھی اب بڑھ گئی ، اب ریو نیو بڑھ گیا تو بیس ہزار ملازمین کم کیوں ہوئے ،میرے علاقے میں انگریز دور کے ریلوے سکولز بند ہو گئے۔

سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ اس حوالے سے معلومات نہیں چیک کر کے بتائیں گے،فریڈ ٹرین سے چار ارب کے مقابلے میں تیرہ ارب کمایا ہے۔میاں عبدالمنان نے کہا کہ انڈونیشیا سے نو ہزار ٹن کوئلہ آتا ہے اگر فیصل آباد میں کوئلہ پہنچانے کیلئے چار ٹرینیں چلائی جائیں اور ایمانداری سے ریلوے کام کرے تو ریونیو مزید بڑھ سکتا ہے۔ حکام نے کہا کہ ریلوے کی کیرج فیکٹری کو پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ سے چلائیں گئے۔

سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ گزشتہ تین سال میں حکومتی اہداف سے مسلسل زیادہ کما رہے ہیں،ماضی میں ہم نے دیے گئے ہدف سے کم کمایا گزشتہ تین سالوں میں ہدف سے زیادہ کمایا ہے،2015-16 میں ہدف تیس ارب تھا جس کے مقابلے میں 36 ارب کا منافع کمایا ، رواں سال 37 ارب روپے سے زیادہ کمائیں گے ،سکولز کے بند ہونے کی وجہ این ایچ اے سے فنڈز نہ ملنا ہے۔ رکن کمیٹی شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ آپ کے اندر ایک مافیا ہے جو ریلوے کو بند کر کے پرائیویٹ سیکٹر کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہے،لاہور کے ڈرائی پورٹ کو آپ لوگوں نے تباہ کیا،ریلوے کی تباہی میں آپ کے افسران کا اپنا ہاتھ ہے،آج بھی افسران کے نام پر کئی بو گیاں خالی چلائی جا رہی ہیں۔

سید خورشید شاہ نے کہا کہ گزشتہ تین سالوں میں حادثاث بڑھ گئے ہیں ،3سالوں میں جتنے ریلوے حادثات ہوئے اتنے گزشتہ 10سال میں بھی نہیں ہوئے،آپ پرانے پلوں کی مرمت کی بجائے نئے پل بنانے کی بات کر رہے ہیں ،پرانے ٹریک اور پلوں کی مرمت کروائیں ورنہ مستقبل میں بھی ایسے حادثاث ہونگے۔کمیٹی نے ریلوے حکام سے رائل پام کلب اور اراضی سے متعلق تفصیلی بریفنگ آئندہ اجلاس میں طلب کر لی۔

شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ ریلوے افسران خود کئی کنال کے گھروں میں رہتے ہیں،غریبوں کی ادھے مرلے کی دوکان اور ایک مرلے کا گھر آپ کو تکلیف دیتی ہے۔پی اے سی نے ریلوے کی ہاوسنگ کالونیوں اور زمین کی لیز سے متعلق بھی انکوائری رپورٹ آئندہ اجلاس میں طلب کر لی۔ آڈٹ اعتراضات کے جائزے کے دوران آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ ریلوے کے ایک ملازم نے ایک کروڑ کا سامان چوری کرکے بیچ دیا،ملازم کو دوبارہ بحال کر دیا گیا۔

رکن کمیٹی محمود خان اچکزئی نے کہا کہ حیرت ہے کہ ملازم کو دوبارہ اسی پوسٹ پر بحال کیا گیا۔یلوے حکام نے کہا کہ بحال اس لئے کیا گیا کہ ہمارے پاس کوئی متبادل ملازم نہیں تھا۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ وہ جنرل منیجر کا بندہ تھا اس لئے بحال کیا گیا اور جواب یہ دیا گیا۔ ریلوے حکام نے کہا کہ ملازم کی بحالی کا فیصلہ فیڈرل سروس ٹربیونل کی طرف سے آیا۔

کمیٹی نے اس معاملے کی انکوائری کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دیاآڈٹ حکام نے بتایا کہ گزشتہ 6 سالوں میں ریلوے کی 14 ارب سے زیادہ مالیت کی اراضی پر قبضہ ہوا۔سیکرٹری ریلوے نے بتایا کہ قبضہ واگزار کرانا بہت مشکل کام ہے۔ حکام نے کہا کہ ریلوے کی زمینوں پر 3قسم کی تجاوزات ہوتی ہیں ، ایک وہ جو عام لوگ کرتے ہیں ، دوسری وہ جو سرکاری ادارے کرتے ہیں تیسری وہ جو رینجرز اور آرمڈ فورسز کرتے ہیں ، رینجرز اور آرمڈ فورسز کی تجاوزات ختم کرا لی ہیں،گزشتہ3سال میں ریلوے کی 3555ایکٹر اراضی واگزار کرائی، 4202 ایکٹر اراضی پر ابھی بھی قبضہ ہے۔ کمیٹی نے حکام کو زمین واگزار کرانے کی ہدایت کر دی۔(ار)

متعلقہ عنوان :