سپریم کورٹ میں پلی بارگیننگ کے ذریعے بدعنوانی میں ملوث افراد کی بریت کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت، نیب کو عدالتی حکم پر عمل درآمد کی ہدایت

منگل 6 دسمبر 2016 23:18

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 06 دسمبر2016ء) سپریم کورٹ نے پلی بارگیننگ کے ذریعے بدعنوانی میں ملوث افراد کی بریت کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس میں نیب کو عدالتی حکم پر عمل درآمد کرنے اور پیش رفت رپورٹ طلب کرلی، عدالت نے اٹارنی جنرل اور پراسیکیوٹر جنرل نیب کو نیب کے متعلقہ قوانین میں بہتری کیلئے قانون سازی کا عمل جلد مکمل کرنے کی بھی ہدایت کی۔

منگل کوچیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر نیب کے پراسیکیوٹر جنرل وقاص قدیر ڈار نے پیش ہوکرعدالت کوبتایا کہ نیب آرڈیننس 1999 ء کے تحت نیب اختیارات کی حد بدلتی رہتی ہے، 5سو ملین سے ہزار ملین روپے کی کرپشن میں آٹھ دس لوگ ملوث ہوں تو انہیں چھوڑ ا نہیں جاسکتا۔

(جاری ہے)

جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ نیب میں کیا کچھ ہوتا ہے، عدا لت کوبتایا جائے کہ نیب کی حد کہاں سے شروع ہوتی ہے۔

ان کاکہنا تھاکہ نیب پٹواری یا سول سرونٹ، جو دو چار لاکھ کی بدعنوانی میں ملوث ہوتے ہیں کو پکڑ کر جیل میں ڈالتا ہے، سوال یہ ہے کہ رضاکارانہ واپسی کا معاملہ سبجیکٹ ٹو کورٹ ہونا چاہئے نہ کہ پسند نا پسند کی بنیاد پر کیاجائے، میگا کیس میں ملزم پر 10کروڑ کرپشن کا الزام ہوتا ہے، پھر ایک کروڑ میں ڈیل ہوتی ہے اوروہی اہلکار 50ہزار روپے دیکر اپنی پوسٹ پر بحال ہوجاتا ہے۔

پراسیکیوٹر جنرل نیب نے عدالت کوبتایا کہ نیب آرڈیننس کے سیکشن 18 کے مطابق ریکور ہونے والا ریونیو قومی خزانے میں جمع ہوتا ہے، اس کے ساتھ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کی شکایت، ہدایت کی روشنی میں بھی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔ اصغر علی کیس میں پلی بار گین کے قانون پر خوب بحث کی گئی ہے جس کے مطابق 10کروڑ سے چھوٹے کیس نہیں لئے جائیں گے، بینک ڈیفالٹ کے مقدمات اینٹی کرپشن کاادارہ نہیں لے سکتا اورایسے کیس جو ایف آئی اے یادیگر ادارے چھوڑ جاتیہیں اس کو پورا کرنے کیلئے نیب کیس لے لیتی ہے۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ اگر اینٹی کرپشن کاادارہ کرپشن کے بعد کھلے عام پھرنے والے سکول ٹیچر یا پٹواری کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتا تو اینٹی کرپشن کو بند کردینا چاہئے۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ اگرکسی ایک کیس میں پٹواری ملوث ہوتا ہے توکیا اسے رقم کم ہونے کی بنیاد پر چھوڑ دیا جائے، ایساکرناتوسراسرزیادتی ہوگی۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ہمارا مقصد پٹواری، سرکاری ملازم وغیرہ کی بڑی میگا کرپشن ہے، نیب تو رقم ریکور کرتا ہے، نیب کا کردار ریکوری آفسر کا نہیں، قانون کا درست استعمال، حدود ہونی چاہیے، دو، چار لاکھ ،یارضاکارانہ طورپر کروڑ روپے واپس کرنے والوں کی کیٹیگریز بنانا ہونگی۔

پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ اربوں روپے کے مقدمات جن میں مضاربہ سکینڈل ، لینڈ سکیم ، ڈبل شاہ وغیر ہ میں عوام کے پیسے ریکور کرکے دیئے گئے ہیں، اس کے ساتھ بہتری کیلئے قانون سازی ہورہی ہے۔ نیب سیکشن 25b بنا رہاہے جس پرکام جاری ہے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کوبتایا کہ جہاں بدعنوانی کے معاملات میں سرکاری، نجی افراد یا بینک ملوث ہوں ان میں تخصیص کیلئے قانون سازی ہونی چاہئے جووزارت قانون کاکام ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جہاں قانون سازی ہونے کی بات ہوتی ہے وہاں دراصل کچھ نہیں ہوتا، ایف ایس ٹی کا فیصلہ عدالت نے دیا مگر قانون سازی نہ ہونے پر عدالت کو سوموٹو ایکشن لینا پڑا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ نیب کی میگا کرپشن فہرست کے مطابق ایک ڈائریکٹر ایف آئی اے کرپشن میں ملوث ہے جو پلی بار گیننگ کرکے واپس ایف آئی اے میں کام کررہا ہے۔ عدالت کوسندھ حکومت کی جانب سے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایاگیاکہ کرپشن میں ملوث 20افراد جبری ریٹائرڈ کردیئے گئے ہیں، چار کو ڈس مس کیا گیا جبکہ 26کو شو کاز نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔بعد ازاں عدالت نے 25لاکھ روپے تک کی کرپشن کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا حکم امتناعی برقرار رکھتے ہوئے مزید سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی۔