سینیٹ کے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کا اجلاس

فاٹا کو پوری دنیا کیلئے خطرہ قرار دینا انتہائی افسوس کی بات ہے ،فاٹا کے عوام کو ترقی کے نام پر سبز باغ دکھائے گئے، فاٹا اصلاحات کمیٹی نے جو سفارشات مرتب کی ہیں ان سے مشکلات میںمزید اضافہ ہو گا ، ایسا نظام انصاف دیا جائے جو عوامی امنگوں کی ترجمانی کرے، نقصانات کا ازالہ ،حقیقی مردم شماری کی جائے،فاٹا میں عوام کے آئینی ، قانونی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے حوالے سے بحث پانچ بنیادی اصلاحات ہونی ہے جن میں سے سپریم کورٹ ،ہائی کورٹکا دائرہ کار فاٹا تک بڑھانے، ایف سی آر کے خاتمہ، رواج کو برقرار رکھنے کیلئے رواج ایکٹ لانے کے اقدامات زیر غور ہیں،وفاقی وزیر قانون زاہد حامد پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی فاٹا کے حوالے سے جلد ہی اپنی سفارشات کو حتمی شکل دے گی جس کے بعد ان سفارشات کو سینیٹ سے منظور کرایا جائے گا ، چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی

منگل 6 دسمبر 2016 20:21

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 دسمبر2016ء) سینیٹ کے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کا اجلاس منگل کو پارلیمنٹ ہائوس کے سینیٹ ہال میں منعقد ہو ا۔جس میں فاٹا میں قانونی، انتظامی اور دوسرے اقدا مات کے ذریعے وفاق کے زیر انتظام علاقوں (فاٹا)کے عوام کے آئینی و قانونی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے حوالہ سے تفصیلی بحث کی گئی۔

سینٹ سیکرٹریٹ کے مطابق کمیٹی کے اجلاس کے دوران اراکین نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے فاٹا کے عوام کی محرومیوں کو دور کرنے کیلئے قابل عمل حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ سینیٹر ہدایت اللہ نے فاٹا اصلاحات کمیٹی کی رپورٹ پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ فاٹا کو پوری دنیا کے لئے خطرہ قرار دیا گیا ہے جس سے فاٹا کے عوام کی دل آزاری ہوئی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پولیٹیکل ایجنٹس نے جرگہ نظام کا غلط استعمال کیا اور جرگہ نظام کرپٹ ہونے کی وجہ سے مسائل پیدا ہونا شروع ہوئے۔ لینڈ سیٹلمنٹ فاٹا میں بہتر طریقے سے ہو رہی ہے ۔ کمیٹی نے لینڈ سیٹلمنٹ کیلئے جو تجویز دی ہے اس سے مسائل پید اہوں گ، فاٹا کے عوام کو ترقی کے نام پر سبز باغ دکھائے گئے، ڈونر کے دیئے ہوئے پیسے اگر فاٹا میں صحیح طریقے سے استعمال ہوتے تو آج یہ مسائل نہ ہوتے، کیر ی لوگر بل کے تحت جو پیسے آئے وہ نیک نیتی کے ساتھ خرچ نہیں ہوئے۔

انہوں نے فاٹا کیلئے الگ کوٹہ کا مطالبہ بھی کیا ۔ سینیٹر اورنگزیب اورکزئی نے کہا کہ اصلاحات پر کوئی اعتراض نہیں فاٹا میںمردم شماری ہونی چاہئے جو اصلاحات فاٹا اصلاحات کمیٹی نے تجویز کی ہیں ان سے فاٹا کے عوام متفق نہیںہیں فاٹا 70 سال سے اندھیرے میں ہے، بچے تعلیم سے محروم اور لوگ بے گھر ہوئے ہیں ۔ اصلاحات عوام کے مستقبل کا سوال ہے، قبائل کے عوام منصفانہ اصلاحات چاہتے ہیں ۔

جس کیلئے بحالی او ر تعمیر نو ضروری ہے۔ سینیٹر تاج محمد آفرید ی نے کہا کہ فاٹا اصلاحات کمیٹی نے جو سفارشات مرتب کی ہیں ان سے مشکلات میںمزید اضافہ ہو گا اور اس رپورٹ سے فاٹا کے عوام میںمایوسی پیدا ہوئی ہے، دہشت گردی، شدت پسندی اور لاقانونیت نے پورے نظام کو مفلوج کر دیا اور قبائلی عوام سے اختیارات چھین کر بیورو کریسی نے اپنے ہاتھ میں لے لئے جس سے قبائلی معاشرے پر برا اثر پڑا ۔

انہوں نے کہا کہ این ایف سی کے تحت دیئے جانے والے فنڈز کیلئے مناسب میکنزم کی ضرورت ہے ۔ فاٹا کیلئے ایسا نظام انصاف دیا جائے جو عوامی امنگوں کی ترجمانی کرے اور فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے لینڈ سیٹلمنٹ کے حوالے سے فاٹا اصلاحات کمیٹی کی تجویز سے اختلاف کیا اور فاٹا میں موجودہ نظام کو بہتر قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا محرومیوں کا شکار ہے اور علاقے کو ترقی دینے کی اشد ضرور ت ہے ۔

سینیٹر مومن خان نے کہا کہ فاٹا کے عوام نے ملک کیلئے قربانیاں دی ہیں، ہم صحیح معنوںمیں اصلاحات چاہتے ہیں جو آئینی اور قانون کے مطابق ہوں۔ انہوں نے مطالبہ کیاکہ پولیٹیکل ایجنٹس کے لامحدود اختیارات کو محدود کیا جائے۔ سینیٹر صالح شاہ نے فاٹا اصلاحا ت کمیٹی کی رپورٹ پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ رپورٹ میں تضادات پائے جاتے ہیں اکثریت کی رائے صوبہ خیبر پختونخوا کے ساتھ ضم ہونے کی مخالف ہے۔

سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ فاٹا کے ساتھ کافی ذیادتی ہوئی ہے ۔ اصلاحات کا عمل کافی سست روی سے ہورہا ہے جس میںتیزی لانے کی ضرورت ہے، فاٹا کے عوام کے حقوق کیلئے ہم نے مناسب انداز میں آواز نہیں اٹھائی ۔ سینیٹر الیاس بلور نے بھی فاٹا کی محرومیوں کا ازالہ کرنے پر زوردیا تاہم انہوںنے کہا کہ فاٹا کا اپنا رسم و رواج اور طرز زندگی کا خیال رکھا جائے۔

انہوں نے تجویز دی کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا کے ساتھ ضم ہونا چاہئے۔ سینیٹر عثمان کاکٹر نے بھی فاٹا اصلاحات عمل کو ایک اچھااقدام قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ آئی ڈی پیز کو باعزت طریقے سے گھروںمیں آباد کیا جائے، نقصانات کا ازالہ اور حقیقی مردم شماری کی جائے۔ جبکہ سیفران کا وزیر بھی فاٹا سے لیا جائے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ فاٹا کے عوام مظلوم ہیں اور یہ وہ علاقہ ہے جنہوں نے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔

انہوں نے فاٹا کو سی پیک کے ساتھ ملانے پر بھی زور دیا۔ سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی نے کہا کہ اعتماد بحال کرنے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے ۔ سینیٹر مظفر حسین شاہ نے کہا کہ فاٹا کو نظر انداز کیا گیا، فاٹا کے عوام کو زیادہ سے زیادہ با اختیار بنانے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر لیفٹینٹ جنرل (ر)عبدالقیوم نے کہا کہ فاٹا اصلاحات کمیٹی نے نیک نیتی کے ساتھ سفارشات مرتب کی ہیں اور یہ مشن ان کی بھلائی کیلئے ہے اور ہمیں اس عمل میں آگے بڑھنا ہوگا۔

سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ فاٹا کے ساتھ 70 سال سے امتیازی سلوک ہورہا ہے اور اس کا ازالہ ہونا چاہئے، فاٹا کو تعلیم، صحت اور ترقیاتی منصوبوں میں شامل کرنا چاہئے اور جنگی بنیادوں پر بجٹ سے ہٹ کر فنڈز دیئے جائیں ۔ انہوںنے تجویز دی کہ فاٹا کو صوبے میں ضم کیا جائے۔ سینیٹر حاصل بزنجو نے تاریخی پہلوئوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا کو بنیادی طور پر انگریزوں نے اپنے سٹرٹیجک مفادات کیلئے استعمال کیا اور پسماندہ رکھا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن سے پہلے خیبرپختونخوا کا حصہ بنایا جائے تاکہ فاٹا کے عوام انتخابات میں حصہ لے سکیں۔ سینیٹر زستارہ ایازاور سینیٹر خالدہ پروین نے بھی فاٹا میں بحالی اور تعمیرنو کے عمل کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بہت بڑا کام کیا ہے اور ایک اچھے طریقے کے ساتھ فاٹا کے مسائل پر توجہ دی ہے اور مردم شماری فاٹا سے ہی شروع کی جائے۔

سینیٹر سردار اعظم موسیٰ خیل نے فاٹا کے عوام کی محرومیوں کو دور کرنے کیلئے تجاویز دیں اور کہا کہ وقت ضائع نہ کیا جائے اور فاٹا کے عوام کو ان کے آئینی اور قانونی حقوق دلائے جائیں۔سینیٹر روبینہ خالد نے بھی فاٹا کے عوام کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کیلئے ایف سی آر میں اجتماعی ذمہ داری اور اس جیسی دوسری شقوں پر نظر ثانی کی ضرورت پر زور دیا ۔

سینیٹر حافظ حمد اللہ نے کہا کہ آٹھ میں سے پانچ ایجنسیاں فاٹا اصلاحا ت کمیٹی کی رپورٹ سے متفق نہیں ہیں اور انضمام کی مخالفت ہو رہی ہے ۔ کمیٹی میںفاٹا کا ایک رکن بھی نہیں ہے۔ انہوںنے کہا کہ عام آدمی کی رائے لی جائے ۔ سینیٹر اعظم سواتی اور سینیٹر ہلال الرحمن نے بھی فاٹا کے عوام کے ساتھ ہونے والی ذیادتیوں پر اپنے نقطہٴ نظر کا اظہا ر کیا۔

چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی میںہونے والی بحث کے دوران آئینی، قانونی، تاریخی اور دیگر دوسرے پہلوئوں پر بحث ہوئی ہے۔ انہوں نے یہ بات واضح کی کہ اس کمیٹی میں ہونے والی بحث کو سینیٹ کی رائے نہ سمجھا جائے۔ کمیٹی اپنی سفارشات مکمل کرے گی اور اس کے بعد وہ سفارشات سینیٹ سے منظور کرائی جائیں گی جس کے بعد ان سفارشات کو سرکاری سطح پر استعمال کیاجا سکے گا۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹرز کی جانب سے تفصیل سے آئینی ، قانونی اور انتظامی امور پر بات کی گئی ہے لیکن اس حوالے سے ایک بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ فاٹا سے متعلق سیکرٹریٹ اور ریاستوں اور سرحدی امور کی وزارت کے مفادات وابستہ ہیں اور اس علاقے میں کروڑوں روپے کی بلیک اکانومی چل رہی ہے ، جب تک ان مفادات سے چھٹکارا نہیں پایا جا ئے گااصلاحات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔

مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ لوگوں کو حقوق ملیں اور فاٹا اصلاحات کمیٹی فاٹا کے ارکین پارلیمنٹ کے پر زور مطالبے پر بنائی گئی تھی فاٹا میں بلدیاتی انتخابات ، تعمیر نو ، اور استعداد کار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ جبکہ قانونی حوالے سے بھی مختلف اقداما ت کرنے ہوں گے۔ انہوں نے کمیٹی کے چیدہ چیدہ نکات پر روشنی ڈالی۔

وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ پانچ بنیادی اصلاحات ہونی ہے جن میں سے سپریم کورٹ اورہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھانے، ایف سی آر کے خاتمہ، رواج کو برقرار رکھنے کیلئے رواج ایکٹ لانے کے اقدامات زیر غور ہیں۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی فاٹا کے حوالے سے جلد ہی اپنی سفارشات کو حتمی شکل دے گی جس کے بعد ان سفارشات کو سینیٹ سے منظور کرایا جائے گا جس میںتمام سٹیک ہولڈرز کی رائے اور اراکین کی سفارشات شامل ہوں گی۔