حکومت پانامہ لیکس کا معاملہ حل کرنا نہیں چاہتی ، تاخیر حربے استعمال کر رہی ہے ،پوری قوم عدالت کی طرف دیکھ رہی ہے ‘ سراج الحق

یہ کسی کا ذاتی مسئلہ نہیں ملک کی نسلوں کا معاملہ ہے ، عدالت دسمبر میں ہی یہ معاملہ حل کرے ، پانامہ لیکس کیس 2017 ء میں نہیں ہونا چاہیے پانامہ لیکس میں بہت سے کردار ہیں ، جماعت اسلامی چاہتی ہے تمام کرداروں کی انکوائری اور ٹرائل کیاجائے اس میں اپوزیشن ، حکومت ، عدلیہ اور بیورو کریٹس شامل ہیں ‘ امیر جماعت اسلامی کی میڈیا سے گفتگو

منگل 6 دسمبر 2016 17:41

اسلام آباد /لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 دسمبر2016ء) امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ پوری قوم عدالت کی طرف دیکھ رہی ہے ، ملک کرپشن کی دلدل میں بری طرح پھنس چکا ہے، اس دلدل سے نکالنا سپریم کورٹ کا فرض ہے ، یہ کسی کا ذاتی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ملک کی نسلوں کا معاملہ ہے ، پانامہ لیکس ایک قومی مسئلہ بن گیا ہے ، سیاسی کارکنان اور غیر سیاسی لوگ بھی کرپشن سے پاک معاشرہ چاہتے ہیں لیکن حکومت پانامہ لیکس کا معاملہ حل کرنا نہیں چاہتی ، حکومت تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے ،ہم چاہتے ہیں کہ عدالت دسمبر میں ہی یہ معاملہ حل کرے ، یہ کیس 2017 ء میں نہیں ہونا چاہیے ،یہ فیصلہ کی گھڑی ہے ہم کہتے ہیں کہ اس معاملے کا فیصلہ کرنے کے لیے کمیشن بنایا جائے یہی موقف تمام سیاسی جماعتوں کا تھا اسی لیے مشترکہ طور پر ٹی او آرز بنائے گئے جنہیں حکومت نے نہیں مانا ، حکومت کمیشن سے خوف زدہ تھی ، اب سپریم کورٹ کو یہ کام کرنا چاہیے اور ہم سپریم کورٹ سے چاہتے ہیں کہ وہ خود ٹی او آرز بنائے اور کمیشن کے لیے کوئی لا محدود مدت نہیں ہونی چاہیے ، اگر جذبہ موجود ہو تو 25 دن میں کیس مکمل کیا جا سکتا ہے ، پانامہ لیکس میں بہت سے کردار ہیں ، جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ تمام کرداروں کی انکوائری اور ٹرائل کیاجائے اس میں اپوزیشن ، حکومت ، عدلیہ اور بیورو کریٹس شامل ہیں ۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئیانہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خ اندان کا معاملہ پہلے دیکھا جائے کیونکہ وزیر اعظم نے اپنے بچوں کے پانامہ لیکس میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے اور خود کو احتساب کے لیے پیش کیا ہے ۔ انہو ںنے کہا کہ چیف جسٹس کے ریمارکس بھی قوم کے سامنے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھاکہ ایک قوم کے خلیفہ نے عام شہری کے سوال کا جواب دیا اس لیے اس زمانے میں بھی کوئی احتساب سے بالا تر نہیں ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے ملکی سیاست کو کرپشن سے پاک کیا جائے ۔ سپاہی کی بجائے وزیر اعظم کا احتساب کیا جائے تو سیاست کرپشن سے پاک ہو سکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ تمام سیاسی جماعتیں تماشائی نہ بنیں جنہوں نے مشترکہ طور پر عدالتی کمیشن کے لیے ٹی او آرز بنائے تھے ۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں کو دعوت دی کہ وہ جماعت اسلامی کے ساتھ مشاورت کر کے معاملے کو آگے بڑھائیں اور اپنی صفوں میں سے بھی کرپٹ لوگوں کو نکالیں اور آئندہ انتخابات میں کرپٹ لوگوں کو ٹکٹ نہ دئیے جائیں ۔

سراج الحق نے کہا کہ سیاست دان کرپشن میں ملوث ہو جائیں تو پھر کون معاشرے کو کرپشن سے پاک کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں وہ دن نہیں دیکھنا چاہتا کہ جس دن قوم عدالت سے مایوس ہو جائے کیونکہ جن معاشروں میں قومیں عدالتوں سے مایوس ہو جاتی ہیں وہاں پر خانہ جنگی شروع ہو جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اصلاحات لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے یہ کام اسمبلی کا تھا لیکن اسمبلی میں قانون سازی نہیں ہوئی ۔

حکومت نے ابھی تک کوئی بل پیش نہیں کیا جبکہ جماعت اسلامی کی طرف سے پیش کئے گئے چار بل سرد خانے میں ڈال دئیے گئے کیونکہ سپیکر اور دیگر نظام حکومت کے ہاتھ میں ہے ۔ فوجی عدالتوں کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر سراج الحق کا کہنا تھا کہ یہ آئیڈیل جمہوری نظام نہیں ہے فوجی عدالتیں سول عدالتوں پر عدم اعتماد ہے لیکن اس کو ایمرجنسی میں کسی خاص وقت کے لیے تو قبول کیا جا سکتا ہے لیکن مستقل طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ فوجی عدالتوں کو تسلیم کرنا سپریم کورٹ پر بھی عدم اعتماد ہے ۔

ہمیں اداروں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے ۔ اگر فوجی عدالتوں سے اصلاح ضروری تھی تو گزشتہ عرصے کو اٹھا کر دیکھ لیا جائے کہ اصلاح ہو چکی ہے یا نہیں ۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی اسی لیے پانامہ لیکس پر کمیشن بنانے کا مطالبہ کر رہی ہے کیونکہ نیب اور ایف آئی اے ہی وہ ادارے ہیں جو تحقیقات کر سکتے ہیں اور نیب کے ساتھ برطانیہ کا معاہدہ ہے جس کے تحت وہ وہاں سے دستاویزات یا ثبوت اکٹھے کر سکتا ہے ۔ ہمارا سپر یم کورٹ سے مطالبہ ہے کہ نیب کو بلایا جائے اور پوچھا جائے کہ اب تک انہوں نے کیوں ایکشن نہیں لیا ۔ پانامہ لیکس میں 600 سے زیادہ لوگ شامل ہیں کیوں ان کے خلاف ایکشن نہیں لیا گیا ۔