سپریم کورٹ میں پاناما پیپرز سے متعلق کیس کی سماعت شروع

جماعت اسلامی کی ایک بار پھر کمیشن بنانے کی استدعا

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین منگل 6 دسمبر 2016 10:42

سپریم کورٹ میں پاناما پیپرز سے متعلق کیس کی سماعت شروع

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔06 دسمبر 2016ء) :سپریم کورٹ میں پاناما پیپرز سے متعلق کیس کی سماعت شروع ہو گئی ہے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں5رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ سماعت شروع ہوتے ہی جماعت اسلامی کی جانب سے کمیشن تشکیل دینےکی پھر استدعا کی گئی ۔ جماعت اسلامی کے وکیل اسد منظور بٹ نے اس موقع پر کہا کہ چاہتے ہیں کہ حکمرانوں سے احتساب شروع ہو لیکن دیگر کو بھی نہ بخشا جائے۔

اسد منظور نے مزید کہا کہ 556 آف شور کمپنیاں ہیں، صرف وزیر اعظم کا احساب نہ ہو۔ اس موقع پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ آپ نے کہا ہے کہ کمیشن تشکیل دیا جائے۔ ہم نے تمام آپشن کھلے رکھے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اس نتیجے پر پہنچے کہ کمیشن کے بغیر انصاف کے تقاضے پورے نہ ہونگے تو ضرور کمیشن بنائینگے۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے کہا کہ نیب، ایف بی آر اور ایف آئی اے نے کچھ نہیں کیا۔

اداروں نے کوئی کام نہیں کرنا تو ان کو بند کردیں۔ جب ہم نے دیکھا کہ کہیں کوئی کارروائی نہیں ہو رہی تو یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لیا۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انسداد کرپشن کے بڑے ادارے نیب، ایف آئی اے ،اینٹی کرپشن ہیں۔انسدادبدعنوانی کےاداروں نے کام نہیں کرنا تو کیا انہیں بند کر دیں؟۔اس موقع پر دلائل دیتے ہوئے تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ وزیراعظم کی پہلی تقریر میں سعودی عرب میں قائم ملوں کی فروخت کی تاریخ نہیں دی گئی۔

لندن فلیٹس سعودی عرب کی مل بیچ کر خریدے یا دبئی کی ملیں بیج کر؟۔حسین نواز نے کہا کہ قطر کی سرمایہ کاری سے لندن فلیٹس خریدے گئے۔اس حوالے سے وزیراعظم اور ان کے بچوں کے بیانات میں واضح تضاد ہے۔اس موقع پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری کو ہدایت کی کہ آپ پرانے دلائل بار بار نہ دہرائیں۔ آپ کے پاس آج دلائل کے لیے صرف 35 منٹ ہیں۔

تحریک انصاف کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے نہیں بتایا لندن پیسہ کیسے بھجوایا گیا۔نوازشریف نے کہا جدہ مل کیلئے دبئی مل کا سرمایہ استعمال ہوا۔نواز شریف نے کہا لندن فلیٹ جدہ اوردبئی ملوں کی فروخت سے لئے۔حسین نواز نےکہا لندن فلیٹ قطر سرمایہ کاری کے بدلے حاصل ہوئے۔دبئی سے قطر بھجوانے کیلئےکوئی رقم نہ تھی۔۔نعیم بخاری نے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف ٹیکس چوری کے مرتکب ہوئے۔

وزیراعظم نے 2014 اور 2015 کے دوران حسین نواز سے 74 کروڑ روپے کے تحفے لیے۔ان تحفوں پروزیر اعظم نےٹیکس ادا نہیں کیا۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے نعیم بخاری سے سوال کیا کہ وزیراعظم کے گوشواروں میں کہاں لکھا ہے مریم نواز اپنے والد کی زیرکفالت ہیں؟ ویلتھ ٹیکس 2011میں مریم نواز کے والد کی زیر کفالت ہونے کے ثبوت بتائیں۔تحریک انصاف کے وکیل نے جواب دیا کہ میرے پاس مریم کے اپنے والد زیر کفالت ہونے کے واضح ثبوت ہیں۔

نواز شریف نے مریم صفدر کو 3 کروڑ 17 لاکھ اور حسین نواز کو 2 کروڑ کے تحفے دیئے۔ اس موقع پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ پہلی سماعت پرنیب نے کہا تھا کہ معاملہ ٹیکس کا ہے۔ کیا ٹیکس کے معاملے پر آرٹیکل 184/3 کے تحت سماعت کرسکتے ہیں ؟ ۔ کیس کو اس طرف نہ لے جائیں جہاں مفاد عامہ کے آرٹیکل کے تحت سماعت نہ کر سکیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کے دلائل سے ظاہر ہوتا ہےکہ مریم نواز زیر کفالت ہیں۔

لیکن ابھی یہ تعین کرنا ہےکہ مریم نواز کس کی زیر کفالت ہیں۔ نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ مریم نواز چودھری شوگر ملز کی شیئر ہولڈر ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ مریم نواز کی آمدن کا ذریعہ چودھری شگر مل ہو۔ اس موقع پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ زیر کفالت ہونے کا معاملہ اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستانی قانون میں زیر کفالت کی کیا تعریف کی گئی ہے اس کا جائزہ لینا ہوگا۔

ہم بھی تلاش کر رہے ہیں آپ بھی تلاش کریں۔نعیم بخاری نے اس موقع پر جسٹس عظمت سعید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جناب میں عمر میں آپ سے بڑا ہوں۔ جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ بخاری صاحب آپ عمر بتا دیں پھر کچھ نہیں کہوں گا۔ جواب میں نعیم بخاری نے کہا کہ میری عمر 68 سال سے بھی زیادہ ہے،عدالت میرے ساتھ مذاق نہ کرے۔ جسٹس عظمت سعید نے جواب دیا کہ پھر آپ تسبیح پکڑیں اور گھر چلے جائیں اور اللہ اللہ کریں۔بعد ازاں اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ مریم نواز نے کہا کہ ان کی کوئی جائیداد نہیں۔ مریم نواز کے شیئرز اور زرعی ارضی بھی ہے۔