وافرفنڈز کی فراہمی کے باوجود دیامربھاشا ڈیم منصوبہ کھٹائی میں پڑنے کاخدشہ

14ارب ڈالر کے منصوبے کیلئے مزید9ہزار سے زائد ایکڑ زمین حاصل کیا جانا باقی ہے وفاقی حکومت رواں مالی سال کے پہلے تین ماہ میں ہی 14 ارب روپے فراہم کرچکی ہے، مجموعی طور پر اب تک 72 ارب روپے جاری کیے گئے ،عہدیدار منصوبہ بندی کمیشن کا انکشاف

پیر 5 دسمبر 2016 12:31

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 05 دسمبر2016ء) وافرفنڈز کی فراہمی کے باوجود 14 ارب ڈالر لاگت کے دیامر بھاشا ڈیم منصوبے کے لیے مزید 9 ہزار سے زائد ایکڑ زمین حاصل کیا جانا باقی ہے، جس میں تاخیر سے منصوبے کے کھٹائی میں پڑنے کاخدشہ ہے۔حکومت اور واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا)نے رواں سال جون تک زمین کے حصول کا ہدف مقرر کیا تھا، تاکہ منصوبے پر عملدرآمد کے اگلے مرحلے کی جانب بڑھا جاسکے، جس میں فنڈز کا انتظام کرنا اور تعمیر کے لیے کانٹریکٹس دیئے جانا شامل ہے۔

نجی ٹی وی کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ منصوبہ بندی کمیشن کے عہدیدار کے مطابق سب سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت رواں مالی سال کے پہلے تین ماہ میں ہی 14 ارب روپے فراہم کرچکی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ حکومت اس کثیرالمقاصد منصوبے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے اور مقررہ وقت سے قبل ہی فنڈز فراہم کر رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت منصوبے کے لیے اب تک 72 ارب روپے جاری کرچکی ہے، قومی اقتصادی کونسل نے منصوبے کے لیے رواں سال 14 ارب روپے مختص کیے جو ہم مالی سال کے پہلے تین ماہ میں ہی جاری کرچکے ہیں۔

نجی ٹی وی کے مطابق وزارت پانی و بجلی نے گزشتے ہفتے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ منصوبے کے لیے 37 ہزار 419 ایکڑ زمین کی ضرورت ہے، جس میں سے اب تک 28 ہزار 247 ایکڑ زمین حاصل کی جاچکی ہے جبکہ مزید 9 ہزار 172 زمین(کل زمین کا 25 فیصد) کا حصول باقی ہے۔منصوبے کی تکمیل سے سسٹم میں 4 ہزار 500 میگاواٹ بجلی شامل ہوگی اور سالانہ بجلی کی پیداوار تقریبا 19 ہزار 208 گیگاواٹ ہاور ہوگی۔

عہدیدار نے کہا کہ منصوبے کے لیے حاصل کی گئی زمین کی ٹرانسفر/رجسٹری کا عمل بھی مکمل ہوگیا ہے اور یہ پہلا موقع ہوگا جب زمین کے حصول اور اس کے نتیجے میں بے دخل ہونے والے افراد کی آباد کاری سے متعلق معاملات منصوبے کے آغاز سے قبل ہی حل ہوچکے ہیں۔زمین کے حصول سے متعلق معاملات مکمل ہونے سے منصوبے پر عملدرآمد میں تاخیر اور اس کی لاگت بڑھنے سے بچا جاسکے گا جس حوالے سے اکثر منصوبوں میں مسائل سامنے آتے رہتے ہیں۔

مثال کے طور پر منگلا ڈیم کے توسیعی منصوبے کی لاگت، زمین کے حصول اور لوگوں کی دوبارہ آباد کاری سے متعلق مقدمات کی وجہ سے 62 ارب روپے سے بڑھ کر 105 ارب روپے ہوگئی تھی۔دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر پہلے ہی تاخیر کا شکار ہوچکی ہے۔جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور حکومت میں ڈیم کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس کی تکمیل کے لیے 2016 کا سال مقرر کیا گیا تھا جسے بعد ازاں 2019 کردیا گیا، لیکن ان کے دور میں اس منصوبے پر رتی برابر بھی کام نہ ہوسکا۔

منصوبہ بندی کمیشن کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ زمین کے مکمل حصول کے بعد ہی منصوبے کے لیے قومی اور بین الاقوامی فنڈنگ کا آغاز کیا جائے گا، جبکہ بین الاقوامی فنڈنگ کے لیے تمام کاغذی کام مکمل کرلیا گیا ہے۔منصوبے کے لیے مطلوبہ فنڈز میں سے تقریبا 80 فیصد (10 ارب سے زائد ڈالر) بین الاقوامی ذرائع سے حاصل کیے جائیں گے جبکہ بقیہ فنڈز کا انتظام مقامی طور پر کیا جائے گا۔اس لیے انتظامیہ نے اب اس منصوبوں کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ایک ڈیم کی تعمیر اور دوسرا توانائی منصوبہ۔ حکومت اب توانائی منصوبے کے لیے فنڈز حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جبکہ ڈیم کے لیے فنڈز ادارتی قرضوں اور بین الاقوامی بانڈز کے ذریعے حاصل کیے جائیں گے۔

متعلقہ عنوان :