لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باونڈری پر بھارتی جارحیت کے باوجود ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں پاکستان کی شرکت افغانستان میں دیرپا امن کیلئے پاکستان کے عزم کا اظہار ہے ، سرتاج عزیز

افغانستان کے مسئلے کا فوجی حل نہیں ہے ، یہ مسئلہ افغان عوام کی خواہشات کے مطابق بات چیت سے حل کیا جائے سارک سربراہ کانفرنس کا ملتوی کیاجانا علاقائی تعاون کی کوششوں کیلئے دھچکا ہے،الزام تراشی کے بجائے ہمیں مثبت اقدامات پر توجہ دینا ہوگی، تنازعات کے پرامن حل سے علاقائی تعاون کو فروغ ملے گا،وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امورکاہارٹ آف ایشیاء کانفرنس سے خطاب

اتوار 4 دسمبر 2016 19:40

+اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 دسمبر2016ء) وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باونڈری پر بھارتی جارحیت کے باوجود ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں پاکستان کی شرکت افغانستان میں دیرپا امن کیلئے پاکستان کے عزم کا اظہار ہے ۔ افغانستان کے مسئلے کا فوجی حل نہیں ہے ۔ یہ مسئلہ افغان عوام کی خواہشات کے مطابق بات چیت سے حل کیا جائے ، پاکستان کی حکومت اور عوام افغانستان میں امن و استحکام کیلئے افغان عوام اور حکومت کے ساتھ ہیں۔

سارک سربراہ کانفرنس کا ملتوی کیاجانا علاقائی تعاون کی کوششوں کیلئے دھچکا ہے ، اتوار کو افعانستان میں امن اور ترقی کے حوالے سے چھٹی ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں شرکت باعث اعزاز ہے ، کشید گی کے باوجود شرکت خطے اور افغانستان میں امن و استحکام کیلئے پاکستان کے عزم کا اظہار ہے ۔

(جاری ہے)

افغانستان کو براستہ پاکستان تجارتی سہولیات دینے کیلئے ہم پرعزم ہیں ، پاکستان نے گزشتہ تین دہائیوں سے لاکھوں مہاجرین کی مہمان نوازی کی ہے ، اقوام متحدہ کے ساتھ ملکر افغان مہاجرین کی باعزت اپنے ملک واپسی کیلئے کام کر رہے ہیں ، افغان مہاجرین کی رضاکارانہ وطن واپسی کے عمل کو 31دسمبر 2017ء تک بڑھایا جا سکتا ہے، افغانستان کی ہر ممکن مدد کرینگے ۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام افغانستان میں امن و استحکام کیلئے افغان عوام اور حکومت کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علاقائی روابط معاشی ترقی میں اضافے کی بنیاد ہیں ، سیاسی استحکام اور معاشی ترقی علاقائی استحکام سے وابستہ ہے ۔ افغانستان میں امن و استحکام ہماری مشترکہ ضرورت ہے ، انہوں نے کہا کہ الزام تراشی کے بجائے ہمیں مثبت اقدامات پر توجہ دینا ہوگی۔

دہشتگردی میں انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے کیلئے ملکر کوششیں کرنا ہونگی۔ تنازعات کے پرامن حل سے علاقائی تعاون کو فروغ ملے گا۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ ساتویں ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس کا آذربائیجان میں انعقاد خوش آئند ہے۔ ہارٹ ایشیاء کانفرنس کا فورم افغانستان میں امن و استحکام کیلئے اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان استنبول مذاکراتی عمل کو اہمیت دیتا ہے۔

انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ پاکستان ہارٹ آف ایشیاء کے مقاصد کے حصول کیلئے تعاون کرے گا اور اس سلسلہ میں سٹیک ہولڈرز کی طرف سے اب تک کی گئی کوششوں کو بامقصد بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال بہت پیچیدہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کسی ایک ملک پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کا الزام عائد کر دینا بہت آسان ہے، ہمیں نیک نیتی کے ساتھ مقاصد پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغان حکومت اور حزب اسلامی افغانستان کے درمیان ہونے والا امن معاہدہ اور عمل درآمد دیگر مزاحمت کار گروپوں کے ساتھ مذاکرات کیلئے رول ماڈل ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردی اور تشدد جس کے نتیجہ میں انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، پر قابو پانے کیلئے موثر اور اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ مشیر خارجہ نے کہا کہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کے عمل کے مثبت نتائج سامنے نہیں آئے ہیں، پاکستان چار فریقی رابطہ گروپ کے ذریعہ امن مذاکرات میں سہولت کیلئے سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے۔

انہوں نے چار فریقی رابطہ گروپ کے تمام اراکین پر زور دیا کہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے خیال میں افغان تنازعہ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور ہماری تمام کوششیں افغان قیادت اور افغان ملکیتی عمل کے ذریعے سیاسی طور پر مذاکرات سے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی جانب ہونا چاہئے۔ سرتاج عزیز نے جنوبی ایشیائی تعاون کی تنظیم سارک کے اسلام آباد میں طے شدہ سربراہ اجلاس کے ملتوی ہونے پر بھی افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ اس سے علاقائی تعاون کے فروغ اور اس کی اہمیت سے متعلق کوششوں کو دھچکا لگا ہے۔

مشیر خارجہ دو روزہ ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں شرکت کیلئے ہفتہ کو یہاں پہنچے ہیں جو افغانستان اور اس کے پڑوسی ممالک کے درمیان علاقائی تعاون اور خطہ میں پائیدار امن کیلئے اہمیت کاحامل ہے۔ بھارتی وزیراعظم اور افغان صدر نے مشترکہ طور پر وزارتی کانفرنس کا افتتاح کیا جس میں تقریباً 14 ممالک سے 40 کے قریب وزراء خارجہ اور اہم شخصیات شریک ہیں۔

سرتاج عزیز نے علاقائی تعاون روابط کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس سے اقتصادی ترقی کو فروغ حاصل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں پاکستان میں قومی سطح پر ریل، سڑک اور توانائی کے ٹرانسمیشن کے نیٹ ورک کا بھی حوالہ دیا تاکہ خطہ میں ٹرانسپورٹ کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے ذریعہ اپنی نوعیت کے شاہکار اور جدید انفراسٹرکچر پر بھرپور توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ٹرانسپورٹیشن اور توانائی انفراسٹرکچر کو افغانستان اور دیگر مغربی اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ منسلک کرنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے آگاہ کیا کہ دونوں ممالک پہلے ہی وسط ایشیائی علاقائی اقتصادی تعاون کا حصہ ہیں جس کے تحت 5 اور 6 ٹرانسپورٹ راہداریوں کے منصوبے زیر غور ہیں، وزیراعظم محمد نواز شریف پہلے ہی اشک آباد معاہدے اور لاپز لازولی راہداری میں شمولیت کا بھی اعلان کر چکے ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان توانائی روابط کے منصوبوں سمیت ترکمانستان۔افغانستان۔پاکستان۔بھارت (تاپی) اور وسط ایشیاء۔جنوبی ایشیاء (کاسا 1000) کے ذریعہ علاقائی ممالک کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ سرتاج عزیز نے پاکستان کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ افغان تجارتی سامان کی اپنی حدود سے نقل و حمل کیلئے سہولت فراہم کرے گا اور افغانستان۔پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کو بہتر بنانے کیلئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

گذشتہ تین دہائیوں سے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کیلئے پاکستان کی کوششوں اور پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے عمل کا اعادہ کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ افغانستان اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے ساتھ مل کر پاکستان افغان پناہ گزینوں کی اپنے وطن باوقار واپسی کے عمل میں کوشاں ہے۔ انہوں نے آگاہ کیا کہ وہ افغان پناہ گزینوں کے قیام میں 31 دسمبر 2017ء تک توسیع پر کام کر رہے ہیں اور پناہ گزینوں کی رضا کارانہ واپسی کو سہل اور منظم بنا رہے ہیں۔

مشیر خارجہ نے افغان صدر اشرف غنی اور افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کی قیادت میں افغانستان کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کو بھی سراہا۔ انہوں نے کہا کہ افغان سکیورٹی فورسز بہادری اور دلیری کے ساتھ عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کے حملوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :