سینیٹ قائمہ کمیٹی قوائد ضوابط و استحقاق نے نیشنل بنک کی طرف سے ایوان بالا کا استحقاق مجروح کرنے کی تحریک پر رائے کیلئے ماہرین قانون کو مدعو کرلیا

نیشنل بنک حکام خود کو قانون کے مطابق معلومات دینے کا پابند نہیں سمجھتے ، سیکرٹری خزانہ پارلیمنٹ سپریم ادار ہے،ایوان بالا کو ان کیمرہ معلومات دیں یا اوپن،لیکن دینا پڑیگی،چیئرمین کمیٹی کے ریمارکس

جمعہ 2 دسمبر 2016 19:43

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 02 دسمبر2016ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قوائد ضوابط و استحقاق نے چیئرمین سینیٹ کی رولنگ کے باوجو دنیشنل بنک آف پاکستان کی طرف سے گذشتہ پانچ سالوں میں قرضے معاف کرانے والوں کی تفصیلات ایوان بالا میں فراہم نہ کئے جانے پر سینیٹ کا استحقاق مجروح ہونے کی تحریک پر آئندہ اجلاس میں ماہرین قانون کو مدعو کرلیا جو اس بات کا جائزہ لیں گے کہ کیا کوئی ادارہ اپنی معلومات پارلیمان سے مخفی رکھ سکتا ہے یا نہیں۔

سیکرٹری خزانہ وقار مسعود نے اس پر موقف دیتے ہوئے کہا کہ نیشنل بنک کے حکام کا کہنا ہے کہ ہم قانون کے مطابق معلومات دینے کے پابند نہیں۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم ادار ہے،ایوان بالا کو ان کیمرہ معلومات دیں یا اوپن،لیکن دینا پڑیں گی۔

(جاری ہے)

جمعہ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قوائد ضوابط کا اجلاس چیئرمین سینیٹر جہانزیب جمالدین کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔

جس میں ممبران کمیٹی سینیٹر سلیم ضیاء،سینیٹر نگہت مرزا،سینیٹر سعید غنی،محرکان شاہی سید،دائود خان اچکزئی ،وزرات پانی و بجلی،وزارت خزانہ ،سٹیٹ بنک اور نیشنل بنک کے حکام نے شرکت کی۔اجلاس میں سینیٹر شاہی سید کی وزارت پانی و بجلی حکام،سینیٹر دائود خان اچکزئی کی چیف سیکرٹری بلوچستان اور خیبرپختونخوا اور ایوان بالا کی استحقاق مجروح کیے جانے پر وزارت خزانہ اور نیشنل بنک حکام کے خلاف تحاریک کا جائزہ لیا گیا۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کے چیئرمین دائود خان اچکزئی نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ وزیراعظم نے سی پیک کیلئے زمین کے حصول کے معاملے پر چیف سیکرٹری بلوچستان،چیف سیکرٹری کے پی کے اور چیئرمین این ایچ اے پر مشتمل کمیٹی قائم کی تھی جس سے ہماری کمیٹی نے 2015میں 6رویہ موٹروے کیلئے زمین کے حصول سے متعلق پیش رفت رپورٹ مانگی تھی لیکن ایک سال سے اوپر ہوگیا نہ معلومات دی گئیں اور نہ ہی چیف سیکرٹریز پیش ہوئے،چیف سیکرٹریز کی نمائندگی کرنے والے افسران نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ وزیراعظم کے ساتھ میٹنگ کی مصروفیت کے باعث چیف سیکرٹری پیش ہوئے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بلوچستان میں ابھی تک سی پیک کیلئے کوئی روڈ نہیں بنا،انہی پرانی سڑکوں اور کچے پکے راستوں پر گاڑیاں چل رہی ہیں،سی پیک کا مستقبل کیا ہوگا،کے پی کے اور بلوچستان کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے،کمیٹی نے 13دسمبر کو ہونے والے اجلاس میں دونوں صوبوں کے ایڈیشنل سیکرٹریز کو طلب کرلیا جبکہ مواصلات کے چیئرمین کمیٹی کی طرف سے بھی متعلقہ چیف سیکرٹریز کو آئندہ اجلاس میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کردی گئی۔

چیئرمین سینیٹ کی رولنگ کے باوجود ایوان بالا میں نیشنل بنک کی طرف سے قرضے معاف کرانے والوں بارے تحریک استحقاق پر کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں ماہرین قانون کو طلب کرلیا،جو کہ اس بات کا جائزہ لیں گے کہ کیا کوئی ادارہ پارلیمنٹ سے معلومات مخفی رکھ سکتا ہے یا نہیں۔سیکرٹری خزانہ وقار مسعود نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ نیشنل بنک حکام کی طرف سے کنفرم کیا گیا ہے کہ قانون کے مطابق اس سوال کا جواب دینے کے پابند نہیں،اس حوالے سے جسٹس (ر) سرمد عثمانی کا بیان بھی آیا ہے۔

سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ سرمد عثمانی ریٹائر جج ہیں، ان کے کمنٹس کو آپ چیئرمین سینیٹ کی رولنگ کے اوپر نہیں رکھ سکتے،رولز میں تو شاید عدالت کو بھی معلومات دینے کے پابند نہ ہوں لیکن پھر بھی دیتے ہیں،پارلیمنٹ اتنا گیا گزرا نہیں کہ اس طرح کی عام سی معلومات بھی فراہم نہ کی جائیں۔اسٹیٹ بنک حکام چیئرمین سینیٹ کی رولنگ پر رویو چاہتے تھے تو خود ان سے رابطہ کرتے،کمیٹی کا اپنا اختیار ہے،تحریک استحقاق کو ایسے نہیں چھوڑ سکتے،اعتزاز احسن،بابر اعوان اور فاروق ایچ نائیک جیسے ماہرین قانون کو بلایا جائے اور ان سے رائے لی جائے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے،میڈیا سے پرابلم تھی تو ان کیمرہ جواب دے دیتے لیکن ایوان بالا کو جواب دینا چاہیے تھا۔(خ م+ار)

متعلقہ عنوان :