اختیارات کی منتقلی کے تین دہائیوں کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے خاموشی سے وزیر اعظم کا سرکاری اداروں کے سربراہان کو برطرف کرنے کا اختیار بحال کردیا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 2 دسمبر 2016 12:37

اختیارات کی منتقلی کے تین دہائیوں کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت ..

ا سلام آباد(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔02 دسمبر۔2016ء) اختیارات کی منتقلی کے تین دہائیوں کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بڑی خاموشی سے بغیر کوئی وجہ بتائے، وزیر اعظم کا سرکاری اداروں کے سربراہان کو برطرف کرنے کا اختیار بحال کردیا گیا ہے۔حکومت یا وزیر اعظم کے پاس کمپنیز آرڈیننس 1984 کے تحت سرکاری اداروں کے چیف ایگزیکٹو آفیسر یا منیجنگ ڈائریکٹر کو عہدے سے ہٹانے کا اختیار نہیں تھا۔

کمپنیز آرڈیننس کے تحت اس بات کو یقینی بنایا گیا تھا کہ سرکاری اداروں کے سربراہان کمپنیوں کے مفاد میں آزاد تجارتی فیصلے کرسکتے ہیں۔آرڈیننس میں چیف ایگزیکٹو کو ہٹانے کے اختیارات کے حوالے سے اچھی طرح وضاحت کی گئی ہے، تاکہ پبلک سیکٹر کمپنیوں کے سربراہان حکومت یا کسی دوسرے مفادات رکھنے والے گروپ کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی نہ بنیں۔

(جاری ہے)

قانون کے تحت چیف ایگزیکٹو کی عہدے کی مدت کو تحفظ بھی دیا گیا ہے۔

سربراہان کو برطرف کرنے کے اختیار کی بحالی کے بعد اب کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو کو اپنی نوکریاں بچانے کے لیے متعلقہ وزارتوں کے تحریری اور زبانی ہدایات پر عمل کرنا ہوگا اور ساتھ ہی بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ساتھ حقوق اور اختیارات کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔باخبر ذرائع کے حوالے سے بتایاگیا ہے کہ قانون میں ترامیم، حالیہ چند سالوں کے دوران چند چیف ایگزیکٹوز کی جانب سے عہدے سے ہٹائے جانے پر مزاحمت اور اس حوالے سے ہائی کورٹس سے رجوع کرنے کے بعد کی گئی۔

چیف ایگزیکٹوز کی جانب سے رجوع کرنے کے بعد عدالتوں نے عہدے سے ہٹائے جانے کے احکامات کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔اسی حوالے سے ایک مثال اس وقت سامنے آئی جب حکومت نے سوئی نادرن کے چیف ایگزیکٹو عارف حمید کو، ایل این جی کی درآمد کے حوالے سے معاہدے پر دستخط سے انکار کے بعد عہدے سے ہٹانے کے احکامات جاری کیے تھے۔بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے ان کی برطرفی کے حکومتی احکامات کو کالعدم قرار دے دیا اور بورڈ آف ڈائریکٹرز بھی انہیں اکثریتی ووٹوں سے ہٹانے کے حکومتی احکامات کو خاطر میں نہ لائے، لیکن پھر عارف نے حمید انکوائری سے بچنے کے لیے خود ہی استعفیٰ دے دیا۔

کمپنیز آرڈیننس 1984 کے تحت صرف کمپنی کے ڈائریکٹرز چیف ایگزیکٹو کو عہدے کی مدت پوری ہونے سے قبل قرارداد کے ذریعے ہٹا سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے بھی کم از کم تین چوتھائی ڈائریکٹرز کی جانب سے اس کی منظوری لازمی ہے۔حکومت نے 11 نومبر سے نافذ العمل کمپنیز آرڈیننس 2016 کے سیکشن 191 میں ذیلی شق شامل کرکے چیف ایگزیکٹو کو حاصل یہ تحفظ ختم کردیا ہے۔

اس ذیلی شق کے مطابق ’سیکشن 186 اور 187 میں فراہم کردہ تحفظ اور شرائط حکومت کی جانب سے نامزد کردہ شخص پر لاگو نہیں ہوں گی۔سرکاری کمپنی کے چیف ایگزیکٹو اور منیجنگ ڈائریکٹر کو برطرف کرنے کے لیے حکومت کو باختیار بنانے کے لیے شامل کی گئی ایک اور نئی شق کے مطابق ’چیف ایگزیکٹو تب تک عہدے پر برقرار رہے گا جب تک حکومت اس کی کارکردگی سے خوش ہوگی۔

قانون میں اس تبدیلی سے حکومت اب اس قابل ہوجائے گی کہ وہ تقریباً 100 پبلک سیکٹر کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹوز کو وفاقی حکومت اور وزیر اعظم آفس کی خواہشات کے برعکس آزادانہ فیصلے کرنے پر، بورڈ آف ڈائریکٹرز سے درخواست کیے بغیر بلاواسطہ طور پر برطرف کرسکے گی۔نیا قانون حکومت کو کمپنی کا چیف ایگزیکٹو نامزد یا مقرر کرنے کے حوالے سے بھی باختیار بنا دے گا، جہاں وہ ڈائریکٹرز کی اکثریت کو خود نامزد کرے گا۔

نئے قانون کے تحت چیف ایگزیکٹو کی تقرری کے حوالے سے شرائط و ضوابط کا تعین بورڈ یا کمپنی اپنی جنرل میٹنگ میں کرے گی یا اگر کمپنی سرکاری ہے تو اس کا تعین حکومت کرے گی۔قانون میں کہا گیا کہ اگر چیف ایگزیکٹو پہلے سے کمپنی کا ڈائریکٹر نہیں ہے تو اسے ڈائریکٹر تصور کی جائے گا، جبکہ سیکشن 153 کے تحت کمپنی کے ڈائریکٹر کے لیے عدم اہلیت رکھنے والے شخص یا سیکشن 171 یا 172 کے تحت نااہل قرار دیئے گئے شخص کا بطور چیف ایگزیکٹو تقرر نہیں کیا جائے گا۔

متعلقہ عنوان :