سویا بین اور کینولا کی کاشت کو رواج دے کر 300ارب روپے کی خوردنی تیل کی درآمد کو کم کیا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر اقرار

جمعرات 1 دسمبر 2016 23:23

فیصل آباد۔یکم دسمبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 01 دسمبر2016ء) زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر اقراراحمد خاں نے کہا ہے کہ ملک میں سویا بین اور کینولا کی کاشت کو اگر اہم فصلات کے طو رپر رواج دیا جائے تو اس سے 300ارب روپے کے خوردنی تیل کی درآمد کو بہت حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ بائیوٹیکنالوجی کی عالمی کمپنی مانسینٹو کے سینئر ایگزیکٹو ڈاکٹر مائو چن سے ملاقات میں ڈاکٹر اقراراحمد خاں نے کہا کہ ہرچند ماضی میں سویا بین اور کینولااپنی غیرمعمولی اہمیت کے باوجود حکومتی ریڈار پر نہیں آ سکے تاہم وہ پراُمید ہیں کہ پنجاب کی نئی زرعی پالیسی میںاس پر بھرپور توجہ دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کا رلاتے ہوئے ڈرل کے ذریعے گندم کاشت کریں تو اس کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ سے گندم کے زیرکاشت رقبہ میں کمی لائی جا سکتی ہے جس سے وہی رقبہ سویا بین اور کینولا کی کاشت کیلئے دستیاب ہوگا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ پاکستان میں اربوں روپے کے خوردنی تیل کی درآمدکے تناظر میں مانسینٹو جی ایم اوسویا بین ٹیکنالوجی یہاں متعارف کروا کرکاروباری بڑھوتری کے امکانات سے فائدہ اٹھاسکتاہے۔

انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی سائنس دانوں کی 100سے زائد اختراعات مارکیٹنگ کیلئے تیار ہیں جن کیلئے کاروباری پارٹنرزکی تلاش سے 100نئے بزنس فروغ پا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی ٹی کاٹن کی دوسری اور تیسری جنریشن میں گلابی سنڈی کو موثر طریقے سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے لہٰذا مانسینٹو دوسری اور تیسری جنریشن کی پاکستان میں دستیابی یقینی بناکرکاروبارمیں وسعت لا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماسنیٹو جیسے عالمی ادارے کے بیج خریدتے وقت کاشتکار کو یہ اعتماد ہوتا ہے کہ اس کا خرچ کیا ہوا سرمایہ ضائع نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر مائو چن نے کہا کہ عالمی سطح پر انڈسٹری اور اکیڈیمیاایک دوسرے کے لئے تعاون کا ہاتھ بڑھاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں بھی ایسا ماحول پروان چڑھایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ادارہ یونیورسٹی ماہرین کے ساتھ سویا بین ٹیکنالوجی کو پاکستان میں متعارف کروانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کا ادارہ پاکستان میں گلابی سنڈی کے خلاف بھرپور قوت مدافعت کی حامل بی ٹی کاٹن کو متعارف کروائے گا جبکہ بائیوسیفٹی اور رسک اسیسمنٹ کے بعدیہاں بل گارڈ IIکی بھی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ اس موقع پر چیئرمین انٹومالوجی ڈاکٹر محمد جلال عارف نے بتایا کہ گزشتہ سال کپاس کی 40فیصد پیداوار کم ہوئی جس سے معیشت بری طرح متاثر ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی ماہرین نے کپاس کے مذکورہ نقصان کی جائزہ رپورٹ تیار کی ہے جس کی سفارشات پر حکومتی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وائس چانسلرڈاکٹر اقراراحمد خاں کی قیادت میں صوبے کی نئی زرعی پالیسی بنانے والی ٹیم زرعی ترقی کے اہداف کو سامنے رکھتے ہوئے پالیسی کے خدوخال ترتیب دے رہی ہے جس سے پورا زرعی شعبہ ترقی کرے گا۔

یونیورسٹی میں مانسینٹو ریسرچ فارم کے سرپرست افتخاراحمد نے بتایا کہ یونیورسٹی میں ہر سال دو کسان میلوں میں شریک ہونے والے ہزاروں کسان‘ پرائیویٹ انڈسٹری کے لوگوں اور حکومتی ذمہ داران نے ریسرچ فارم کا دورہ کیا ہے جبکہ یونیورسٹی اساتذہ بھی اپنی کلاسوں کو مانسینٹو فارم پر لیجاتے ہیں جس سے ریسرچ و ڈویلپمنٹ کی سرگرمیوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔

متعلقہ عنوان :