حکومت خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے کی بجائے مسئلہ کشمیر کے حل کا روڈ میپ دے اور قومی پالیسی تشکیل دے ،کشمیر کے مسئلہ کو پاکستان کی سکیورٹی کے ساتھ نتھی کیا جائے ،اب عملی کام کرنے کا وقت آگیا ہے ،کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے ،بھارت لائن آف کنٹرول پر حملے کرکے اپنی خفت مٹانے کی کوشش کررہا ہے ،نئے آرمی چیف کیلئے بھی ایمان تقوی اور جہاد فی سبیل اللہ ہی ماٹو ہے،حکومت آزاد کشمیرحکومت کو معاشی خود مختاری دی جائے

امیرجماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کا کشمیر ی تنظیم کے زیر اہتمام تحریک آزادی کشمیر بارے مشاورتی اجلاس سے خطاب

جمعرات 1 دسمبر 2016 23:12

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 01 دسمبر2016ء) امیرجماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ حکومت خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے کی بجائے مسئلہ کشمیر کے حل کا روڈ میپ دے اور قومی پالیسی تشکیل دے ،کشمیر کے مسئلہ کو پاکستان کی سکیورٹی کے ساتھ نتھی کیا جائے ،اب عملی کام کرنے کا وقت آگیا ہے ،کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے،بھارت لائن آف کنٹرول پر حملے کرکے اپنی خفت مٹانے کی کوشش کررہا ہے،بارڈر پر بہت سے کشمیریوں نے ہجرت کی ہے لیکن حکومت نے کچھ نہیں کیا،نئے آرمی چیف کے لئے بھی ایمان تقوی اور جہاد فی سبیل اللہ ہی ماٹو ہے،حکومت آزاد کشمیرحکومت کو معاشی خود مختاری دی جائے۔

وہ جمعرات کو یہاں ایک مقامی ہوٹل میں کشمیر ی تنظیم کے زیر اہتمام تحریک آزادی کشمیر بارے ایک مشاورتی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

مشاورتی اجلاس سے مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اعجازالحق، جماعت الدعوہ کے امیر حافظ سعید،حریت کانفرنس کے یوسف نسیم،سربراہ انصار الامہ مولانا فضل الرحمان خلیل،چیئرمین تحریک آزادی جموں و کشمیر عبدالعزیز علوی ودیگر نے بھی خطاب کیا،سراج الحق نے کہا کہ کشمیر کا معاملہ افغانستان اور فلسطین سے مختلف ہے۔

کشمیریوں میں جذبہ جہاد کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔بندوق کے زور مزید قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتے۔ہم نے وہ حق ادا نہیں کیا جو کرنا چاہئے تجا ہم کشمیریوں کے مجرم ہیں۔ہمیں شیردل قیادت کی ضرورت ہے۔حکومت تماشائی کا کردار ادا کرنے کی بجائے کشمیر پر قومی پالیسی دے۔کمشیر کے مسئلہ کو پاکستان کی سکیورٹی کے ساتھ نتھی کیا جائے۔اب عملی کام کرنے کا وقت آگیا ہے۔

کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔بھارت لائن آف کنٹرول پر حملے کرکے اپنی خفت مٹانے کی کوشش کررہا ہے۔بارڈر پر بہت سے کشمیریوں نے ہجرت کی ہے لیکن حکومت نے کچھ نہیں کیا۔پاکستان کے وسائل پر سب سے زیادہ حق کشمیری مہاجرین کا ہے۔کشمیر ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔اب تک ایک اندازہ کے مطابق روز چار کشمیری شہید ہورہے ہیں۔آٹھ لاکھ فوج کشمیر پر مسلط ہی, آٹھ کشمیریوں پر ایک بھارتی فوجی مسلط ہے۔

کشمیری ایک عرصہ سے قربانیاں دے رہے ہیں لیکن کوئی ان کی مدد و تعاون نہیں کررہا۔فسلطین و افغانستان کے پیچھے پوری دنیا کھڑی ہے لیکن افسوس کشمیریوں کی مدد کے لئے کوئی آگے نہیں آیا۔خود بھارتی صحافی اعتراف ہیں کہ بھارت بندوق کے زور پر کشمیر پر قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتا۔کشمیریوں نے جدوجہد آزادی کا حق ادا کردیا, افسوس ہم اپنا کردار ادا نہ کرسکے۔

کشمیر کے معاملے پر ابھی نہیں تو کبھی نہیں کے فسلفے پر عمل پیرا ہوکر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔حکومت آزایء کشمیر کے حل کے لئے روڈ میپ دے اور ایسی ریاستی پالیسی تشکیل دی جائے جو حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ تبدیل نہ ہو۔مسئلہ کشمیر کو قومی سلامتی کے ساتھ جوڑاجائے۔ بھارت کی کنٹرول لائن پر فائرنگ سے واضح ہوگیا کہ کشمیر اب ہندوستان کے ہاتھ سے نکل چکا۔

بھارت اب بوکھلاہٹ کا شکار ہی, اسی خفت کو مٹانے کے لئے بارڈر پر بلااشتعال فائرنگ کررہا ہے۔نئے آرمی چیف کے لئے بھی ایمان تقوی اور جہاد فی سبیل اللہ ہی ماٹو ہے۔حکومت آزاد کشمیرحکومت کو معاشی خود مختاری دی جائے۔ہمیں آزاد کشمیر کو صحیح معنوں میں آزادی کا بیس کیمپ بنانے کی ضرورت ہے۔سربراہ مسلم لیگ ضیا شہید گروپ ا عجاز الحق نے کہا کہ وزیر اعظم کی اقوام متحدہ میں گفتگو بہت اچھی رہی۔

حکومت کو اپنی کشمیر پالیسی واضح کرنی چاہیئے۔سانحہ اے پی ایس کی طرح کشمیر پر بلاکر پالیسی بنانی چاہیئے۔کنٹرول لائن پر بھارت کی جارحیت مسلسل جاری ہے۔کشمیری چند ماہ مزید اس کرفیو کو برداشت کرسکیں گے۔ مگر کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔امیر جماعت الدعوہ پاکستان حافظ محمد سعید نے کہا کہ-کشمیر میں خون بہہ رہا ہے۔ 4 ماہ سے کرفیو بھگت رہے ہیں۔

تحریک اس وقت جس مقام پر ہے ماضی میں ایسا عروج کبھی نہیں نظر آیا۔حکومت، اپوزیشن، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کا کردار کشمیر کے حوالے سے کیا ہی-بھارت نے کشنیر کو اٹوٹ انگ کہا اور پروپیگنڈا کیا۔ آج امریکا بھی کہ رہا ہے کہ کشمیر انڈیا کا اندرونی مسئلہ ہے،آج دنیا انڈیا کی ہاں میں ہاں کیوں ملارہی ہے۔ وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی میں اچھی تقریر کی مگر عملا کیا کردار ادا کیا کشمیریوں کا صبر دیکھیں وہ مظالم اور کرفیو کے باوجود پاکستان کا پرچم اٹھائے کھڑے ہیں۔

کشمیر کی خواتین اور بچے پاکستان کا نعرہ لگارہے ہیں۔مجلس مشاورت میں یہ طے کیا جائے کہ پاکستان کشمیر پر واضح موقف دے اور اس پر کھڑا ہو۔بانی پاکستان نے کشمیر کو شہ رگ کہا۔ شہ رگ کو دشمن کے پنجھے سے چھڑانا ضروری یے۔قومی اسمبلی میں قرار داد پیش کی جائے کہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اس کی تحریک کو آئینی تسلیم کیا جائے۔کشمیر میں ہونے والی جدوجہد آئنی یے پاکستان آزادی کی تحریک کو قبول کیا جائے ،بعض پاکستانی میڈیا گروپ امریکی زبان بولتے ہے اور کشمیر کی تحریک کو دہشت گردی کہا جاتا ہے انہیں سمجھانا چاہیئے۔

کشمیر میں بہنے والے خون کے بعد تجارت بند کرکے کشمیریوں کی امداد کے لیے سامان بھیجنا چاہیئے۔وزیر اعظم مودی نے پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکی دی اس پر پاکستان نے کیا نوٹس لیا۔رسمی اعلامیہ نہ جاری کیا جائے بلکہ رابطہ کمیٹی بنائی جائے جو سول و عسکری قیادت سے رابطہ کرے۔تحریک میں جہاں کشمیری کھڑا ہے وہاں پاکستانی بھی کھڑا ہوگا۔کشمیر کے لیے عملا کام کرو یا پھر کشمیر کانام لینا چھوڑ دو۔

چیئرمین تحریک آزادی جموں و کشمیر عبدالعزیز علوی نے کہا کہپاکستان کی زراعت اور ڈیم کشمیر کے بغیر کس طرح ممکن ہے ،پاکستانی قوم نے ہر موقع پر کشمیری بھائیوں کے ساتھ دیا مگر قومی پالیسیاں میں کشمیر کو کتنا حصہ دیا گیا،رہنما آل پارٹیز حریت کانفرنس یوسف نسیم نے کہا کہپاکستان کی حکومت، دینی جماعتیں اور میڈیا کشمیر میں جاری تحریک اور قربانیوں کو دیکھ رہا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کو پاکستان سے کسی بڑے عملی تعاون کی ضرورت ہے۔پاکستان کا ہر شہری مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے باخبر ہے۔کشمیری نوجوان کب تک اکیلے فوج کا مقابلہ کرتے رہیں گے۔ کشمیری کبھی بھارت کے ساتھ ملیں گے اور نہ بھارت کبھی انہیں خرید سکتا ہے۔سربراہ انصار الامہ مولانا فضل الرحمان خلیل نے کہا کہ کشمیر پر کوئی پالیسی واضح نہیں۔کشمیر کے لیے قربانیاں دینے والوں کو دہشت گرد کہا جاتا ہے۔

کشمیریوں سے رشتہ اسلام کی بنیاد پر ہے۔کشمیر سے ہماری زراعت، پانی اور دفاع وابسطہ ہے۔پون صدی گزر چکی آزادی کی بجائے ظلم و ستم میں اضافہ ہورہا ہے۔قرآن کا واضح اعلان ہے کہ مظلوموں کی مدد کرنا چاہیئے۔کشمیریوں کی مدد اور یکجہتی ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔علامہ ابتسام الہی ظہیر نے کہا کہ کشمیریوں کا مقدمہ اگر ہم نہیں لڑیں گے تو دنیا میں کوئی نہیں لڑے گا۔ہم عوامی اجتماعات اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے حکمرانوں کو کہیں کہ وہ دنیا کے سامنے کشمیر کا مسئلہ مزید اٹھائے۔…(ع ع)