فرانسیسی سفارتخانہ کے آڈیٹوریم میں ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم’’اخروٹ کا درخت‘‘ دکھائی گئی

جمعرات 1 دسمبر 2016 22:41

اسلام آباد ۔ یکم دسمبر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 01 دسمبر2016ء) فرانسیسی سفارتخانہ کے آڈیٹوریم میں ایک ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم اخروٹ کا درخت دکھائی گئی جو پشاور کے نزدیک جلوزئی کیمپ میں داخلی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کے حالات زندگی سے متعلق ہے۔ دستاویزی فلم نیشنل کالج آف آرٹس کے ایک گریجویٹ عمار عزیز نے تیار کی ہے۔

پاکستان میں فرانسیسی سفیر مادام مارٹن ڈورینس نے دستاویزی فلم کے اختتام پر ’’اے پی پی‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ فلم میں دنیا بھر کے مہاجرین کا پیغام دیا گیا ہے جو اپنے گھروں کو ترک نہیں کرنا چاہتے تاہم وہ اپنے آبائی علاقوں کے حالات سے مجبور ہیں۔ دستاویزی فلم اسلام آباد میں مقیم یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے نمائندوں نے دیکھی۔

(جاری ہے)

دستاویزی فلم کے ڈائریکٹر عمار عزیز نے ’’اے پی پی‘‘ کو بتایا کہ یہ فلم پشاور کے نزدیک جلوزئی کیمپ سے متعلق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مختلف خاندانوں کے ساتھ وقت گزار رہے ہیں اور پھر ایک شخص کی کہانی معلوم ہوتی ہے جو اپنے گھر جانا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیمپ میں رہنے والے ایک ضعیف شخص کی ایک بہترین سوچ ہے جو اپنے خاندان کے ہمراہ رہتا ہے جس میں اس کا بیٹا، بہو اور دو بچے شامل ہیں۔

جب عمار عزیز سے پوچھا گیا کہ کس بات نے انہیں دستاویزی فلم تیار کرنے کی ترغیب دی تو انہوں نے کہا کہ میرے لئے بیدخل ہونے والے لوگوں کا مسئلہ بڑا ذاتی ہے کیونکہ میرے بزرگوں نے بھارتی پنجاب سے ہجرت کی اور میں تشدد کی کہانیاں سنتا رہا، جب میں کیمپ میں آیا تو میں نے ان لوگوں کو دیکھا جو اپنے گھروں سے بیدخل ہوئے اس لئے میرے لئے بھی وہ تعلق کی حیثیت رکھتے ہیں۔

دستاویزی فلم کی نمائش 15 نومبر سے 10 دسمبر تک ہونے والی سینماٹو گرافی کے ذریعے جاری فلم فیسٹیول ہیومن رائٹس کا حصہ ہے۔ فیسٹیول کے دوران اسلام آباد، کراچی، لاہور، گجرات، پشاور اور کوئٹہ میں 25 فلموں اور دستاویزی فلموں کی نمائش ہو گی۔ بیشتر فلموں کی نمائش پہلے ہو چکی ہے۔ دستاویزی فلم میں جلوزئی کیمپ میں ایک خاندان کی معمول کی زندگی کی حقیقی تصویر دی گئی ہے جو غربت سے متاثر ہیں۔

ضعیف شخص جو اپنا سکول چھوڑ کر آیا اکثر اداس رہتا ہے اور اپنے آبائی دیہات جانے کیلئے امید لگائے ہوئے ہے اور وہ ہر روز اپنے پوتوں کو بتاتا ہے کہ وہ اس دن کا انتظار کر رہا ہے جب وہ واپس جائے گا اور اخروٹ کے درخت کے سائے میں بیٹھے گا جو اس کے والد نے لگایا تھا اور اسے اس کی دیکھ بھال کرنے کی ہدایت کی تھی۔ ایک روز وہ اپنے خاندان سے کہتا ہے کہ وہ اپنے آبائی گائوں جانا چاہتا ہے اور اچانک ایک روز خاموشی سے چلا جاتا ہے اور لاپتہ ہو جاتا ہے اور اس کا بیٹا اپنے آبائی دیہات جانے کے باوجود اسے تلاش نہیں کر سکا۔