شفافیت اور میرٹ اداروں کی بقاء کی ضامن ہوتے ہیں‘ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

جلد اور معیاری انصاف کی فراہمی کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جا رہے ہیں‘ جسٹس سید منصور علی شاہ کا لمز کے سکول آف لاء کے طلبہ و طالبات سے خطاب

جمعرات 1 دسمبر 2016 22:28

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 دسمبر2016ء) چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ شفافیت اور میرٹ اداروں کی بقاء کے ضامن ہوتے ہیں، عدلیہ میں شفافیت کیلئے اصلاحات لائی گئی ہیں، کوئی بھی کیس کسی کی مرضی سے کسی جج صاحب کے پاس نہیں لگتا، عدالت عالیہ لاہور کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کیلئے ایس ایم ایس سروس، سہولت سنٹر، لاہور ہائی کورٹ ایپلیکیشن اور جدید ترین آٹومیشن سسٹم لایا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے ان خیالات کا اظہار لمز کے سکول آف لاء میں طلبہ و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ اس موقع پر مسٹر جسٹس محمد یاور علی، مسٹر جسٹس محمد قاسم خان، مسٹر جسٹس عابد عزیز شیخ اور دیگر فاضل جج صاحبان کے علاوہ جسٹس (ر) فضل کریم ، چیف جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی اور چیف جسٹس(ر) جواد ایس خواجہ بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

لمز کے موٹ ہال میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ اور ضلعی عدلیہ میں لاکھوں کی تعداد میں مقدمات زیر التواء ہیں، انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان کے مقدمات میں سی98 فیصدمقدمات پنجاب میں ہوتے ہیں، تاہم عدالت عالیہ لاہور میں دائر کئے جانے والے مقدمات کی نسبت فیصلہ کئے جانے والے مقدمات کی تعداد زیادہ ہے، عدالت عالیہ لاہور کے جج صاحبان عام آدمی کو جلد اور معیاری انصاف کی فراہمی کیلئے دن رات کوشاں ہیں اور اس کیلئے ہر ممکن اقدامات بھی کئے جا رہے ہیں۔

فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن ملک کے نامور اور معروف قانون دانوں پر مشتمل ہے ، جس نے قانون کی بالادستی اور آزاد عدلیہ کی خاطرہمیشہ جدوجہد کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ اور بار میں تمام معاملات کے حوالے سے مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ فاضل چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چھوٹے چھوٹے معاملات پر ہڑتالیں انصاف کی فراہمی میں بڑی رکاوٹ ہیں ، اس کلچر کو جلد از جلد ختم ہوجانا چاہیے، انہوں نے کہا کہ چھوٹے چھوٹے لاء کالجز، اکیڈمیاں اور ٹیوشن سنٹر یونیورسٹیوں کے ساتھ ملی بھگت سے قانون کی ڈگریاں بانٹ رہی ہیں ، انہوں نے کہا کہ عدالت عالیہ لاہور کے فل بنچ میں زیر سماعت ایک کیس میں ایسی اکیڈمیوں اور ٹیوشن سنٹرز کے تدارک کیلئے ہدایات جاری کی گئی ہیں تاہم یونیورسٹیز اور بار کونسلز کو بھی اس میں اہم کردار ادا کرنا ہوگا اور چیک اینڈ بیلنس رکھنا ہوگا۔

فاضل چیف جسٹس نے طلبہ و طالبات کو لاہور ہائیکورٹ کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ اور عدالت عالیہ کی عالیشان عمارت کے پہلوئوں سے بھی آگاہ کیا۔ فاضل چیف جسٹس نے شرکاء کو بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ میں مقدمات کے جلد فیصلوں کیلئے خصوصی بنچز بنائے گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ ضلعی عدلیہ میں لاکھوں کی تعداد میںموجود مقدمات کے فیصلہ ناممکن ہے، اس لئے ورلڈ بنک کے تعاون سے پاکستان کا پہلاADR سنٹر لاہور میں قائم کیا جارہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ دہلی ہائی کورٹ میں سات منزلہ عمارت میں ADR کے تحت مقدمات کے فیصلے کئے جاتے ہیں، فاضل چیف جسٹس نے کہا عام آدمی ہم سے صرف یہی امید کرتا ہے کہ اس کے مقدمے کی شیلف لائف کم کر دی جائے ، مقدمات کے قانون کے مطابق جلد فیصلے کر دیئے جائیں ۔

فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ متبادل مصالحتی نظام کے تحت حکم امتناعی کا کلچر بھی ختم ہو جائے گا۔ فاضل چیف جسٹس نے مزید کہا کہ پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کو بھی جدید خطوط پر استوار کیا گیا ہے، ڈسٹرکٹ لرننگ پروگرام کے تحت پنجاب جوڈیشل اکیڈمی سے ویڈیو لنک کے ذریعے تربیتی کورسز کا آغاز کیا گیا ہے ، انہوں نے کہا کے پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں جنرل ٹریننگ پروگرام 2016 بھی جاری ہے جس کے تحت پنجاب کے تمام جوڈیشل افسران کو ایک سال میں کم ازکم ایک دفعہ اکیڈمی میں تربیتی کورس کے لئے آنا ہوگا۔

فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ان تمام اقدامات کا مقصدسائلین کو انصاف تک آسان رسائی ممکن بنانا ہے، عدالت عالیہ لاہور اور ضلعی عدلیہ کے وجود کا مقصد لوگوں کے بنیادی آئینی حقوق کا تحفظ ہے، عدلیہ ریاست کا تیسرا ستون اور آئین و قانون کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کرتی رہے گی۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ وہ لمز سکول آف لاء سے امید کرتے ہیں کہ ADR کے حوالے سے طلبہ و طالبات کو تربیت دی جائے،لاء جرنل کا مطالعہ کریں اور ہمارے فیصلے کا تنقیدی جائزہ لیں، ۔ تقریب سے لمز کے وائس چانسلر سہیل نقوی، سکول آف لاء کے ڈین اور ڈائریکٹر نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔