نویں عالمی اُردو کانفرنس کا باقاعدہ آغازآرٹس کونسل آف پاکستان میں کردیاگیا یہ کانفرنس 4روز تک جاری رہے گی

جمعرات 1 دسمبر 2016 22:23

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 دسمبر2016ء) نویں عالمی اُردو کانفرنس کا باقاعدہ آغاز جمعرات کو آرٹس کونسل آف پاکستان میں ایک شاندار تقریب میں ہوگیا یہ کانفرنس 4روز تک جاری رہے گی افتتاحی اجلاس کی سب سے اہم بات بھارت سے معروف ادیب اور دانشور شمیم حنفی کا آڈیوخطاب تھا جو براہِ راست دہلی سے ہوا ۔ افتتاحی تقریب میں مشتاق یوسفی، اسد محمد خاں، آئی اے رحمن، شمیم حنفی، زہرا نگاہ، پیرزادہ قاسم، رضا علی عابدی، حسینہ معین، نورالہدیٰ شاہ، فاطمہ حسن،فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، آصف اسلم فرخی، پروفیسر سحر انصاری، شہناز صدیقی، احمد شاہ، زاہدہ حنا، امداد حسینی، پروفیسر اعجاز فاروقی، اطہر وقار عظیم اور دیگر موجود تھے۔

قبل ازاںندیم ظفر نے تلاوت کی،نعت رسولِ مقبول ؐغلام صابریوسفی نے پیش کی جبکہ نظامت کے فرائض سیکریٹری آرٹس کونسل آف پاکستان ڈاکٹر ہما میر نے انجام دیئے۔

(جاری ہے)

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے تحت منعقدہ نویں عالمی اُردو کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نویں عالمی اُردو کانفرنس2016ء اور آرٹس کونسل آف پاکستان کے چیئرمین محمد احمد شاہ نے کہاکہ یہ کانفرنس زبانوں سے محبت کرنے والوں کا ایک قافلہ ہے۔

ساری زبانوں کی نمائندگی یہاں موجود ہے۔ ہم قومی ثقافتی کانفرنس کرنے جارہے ہیں جو فروری میں ہوگی۔ تمام زبانوں کا ادب قابلِ قدر ہے دوسری زبان والوں نے بھی اُردو پر احسان کیا ہے ہمیں اس خطے کی دوسری زبانوں سے بھی تعلق رکھنا چاہئے، اُردو رابطے کی زبان ہے، گروہی تقسیم کو ختم کرنا پڑے گا اُردو تمام زبانوں کے لوگوں کے دل کی آواز ہے۔ اُردو پر تمام زبانوں کا احسان ہے جس میں ہر زبان نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔

ہم اپنے اکابرین کو یاد رکھتے ہوئے اپنے کام کو آگے بڑھائیں گے، میڈیا میں بھرپور کوریج دی جاتی ہے بھارتی ادیب خوف کی وجہ سے نہیں آسکے۔جو بڑے ادیب اس دُنیا سے جارہے ہیں ان کا متبادل میسر نہیں آرہا لیکن یہ بات قابل اطمینان ہے کہ ادب کا ذخیرہ چھوڑ کر جارہے ہیں یہ عالمی اُردو کانفرنس کنبے کی شکل اختیار کرگئی ہے ہمیں تنگ نظر سوچ رکھنے والوں کو شکست دینے کے لئے تمام زبانیں بولنے والوں کواکٹھا کرنا ہوگا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سندھی زبان سیکھیں اور دوسری زبانوں میں جو اعلیٰ ادب تخلیق ہورہا ہے ہمیں اس سے استفادہ کرنا چاہئے کوئی بھی سچا ادیب نسلی و امتیازی تعصب کا شکار نہیں ہوسکتا۔

بھارت میں انتہا پسندی جوبن پر ہے اور اسی وجہ سے وہاں کا ادیب خوف کا شکار ہے۔ وہاں لوگوں کا جینا دوبھر کیا جارہا ہے۔بھارت سے اپنے براہِ راست آڈیو خطاب میں شمیم حنفی نے ’’جدید ادب ۔مسائل وامکانات‘‘ کے موضوع پر اپنے کلیدی مقالے میں کہاکہ جو ادیب چلے گئے میری اُن سب سے ملاقاتیں رہیں، میرے لئے یہ ایک جذباتی لمحہ ہے۔ آج کی دُنیا میں اظہار کے وسائل موجود ہیں ان میں سب سے بااثر ادب ہے، یہ صرف فاصلوں کوہی عبور نہیں کرتا وہ سب کو ایک ہی صف میں لاکر بٹھا دیتا ہے۔

ہم خوابوں سے جڑے ہوئے ہیں مجھے محرومی کا شدید احساس ہے، گہرا رشتہ رکھنے کے باوجود ہم ایک دوسرے سے کتنے دور ہیں، تہذیبی رشتوں کو کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا، مجھے نہ آنے کا شدید افسوس ہے، کتابوں کے ذریعے ایک دوسرے کی خبر ملتی رہتی ہے اُردو دُنیا کو تقسیم نہیں کیا جاسکتا، تہذیبی بنیاد بہت مستحکم ہوتی ہیں اُن میں دراڑ ڈالنا کوئی آسان بات نہیں۔

ہمارا ماضی ایک ہے بڑی حد تک ہمارے ہاں 22زبانوں کا ادب ہے۔ ادب کو سرحدوں کا پابند نہیں کیا جاسکتا مزاحمتی ادب دونوں طرف لکھا جارہا ہے۔اُردو ایک فرقے یا قوم کی زبان نہیں، اس کے اثرات ہر زبان کے لوگوں نے قبول کئے۔ فارسی اور عربی کا اُردو سے روحانی رشتہ ہے۔ سیاست دان بھی ادب کی طاقت کو سمجھتے ہیں ادب دُنیا کو سمجھنے اور سمجھانے کا سب سے بڑا وسیلہ ہے میری دُعا ہے کہ کانفرنس کامیاب ہوگی۔

مجھے عدم شرکت کا افسوس ہے۔ہم ایک دوسرے سے قربت کے رشتے کے باوجود ایک دوسرے سے کتنے دور ہیں ہماری مجبوری یہ ہے کہ تاریخ کے جبر کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے الگ ہیں ماضی ،تجربے،ثقافت اور زبان کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ ہیں ادب کی پہچان مزاحمت بن گئی۔ اب اس وقت مزاحمتی ادب فروغ پا رہا ہے جو غیر معمولی بات ہے۔ ہمیں آزادی کے لئے جبر کے خاتمے کے لئے ادب کا سہارا لینا ہوگا۔

زہرہ نگاہ کی نظموں میں مزاحمتی ادب کی مثال بڑی نمایاں ملتی ہے مجھے خوشی کے ہمارے کچھ نوجوان ادیب ان کا حوالہ دیتے ہیں، انہوں نے کہاکہ وقت میں یہ بڑی خوبی ہے اور خرابی بھی ہے کہ گزر جاتا ہے۔ اس موقع پر آصف اسلم فرخی نے ’’ہمارا ادب اور ہماری دُنیا‘‘ کے موضوع پر اپنے کلیدی مقالے میں کہاکہ بڑوں کے چلے جانے نے ہمارا قد اونچا کردیا ہے میرے سامنے دوبڑی خبروں میں ڈونلڈ ٹرمپ کا جیتنا اور جنرل کاسترو کی مدت، ٹرمپ کے جیتنے پر سمجھ نہیں آرہا آنسو بہائوں یا قہقہہ لگائوں۔

کاسترو تو انقلاب کا نعرئہ مستانہ ہے وہ شاید امریکی الیکشن کے نتائج کا انتظار کررہے تھے اور شاید اسے برداشت نہ کرسکے ہمارے ہاں ادیب کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی ورنہ امریکی الیکشن کے نتائج نے وہاں کے ادیبوں کو رائے زنی پر مجبور کردیا ہمارا ادب سیاسی انتشار کے اثرات سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔ سرکاری ادارے ذاتی مفادات اور نااہلی کی پرورش کررہے ہیں۔ قومی مفادات اور مفادِعامہ سے کوئی سروکار نہیں۔ موت کے شائبے کے باوجود ادب اس لئے زندہ ہے کہ ادب مرنہیں سکتا ہم مرسکتے ہیں۔ افتتاحی تقریب سے رضا علی عابدی، امدادحسینی، زاہدہ حنا، نورالہدیٰ شاہ، پیرزادہ قاسم، اسد محمد خان ودیگر نے بھی اظہارِ خیال کیا۔

متعلقہ عنوان :