کوہستان ویڈیو اسکینڈل ،ْسیشن جج کی سربراہی میںتحقیقاتی کمیشن نے لڑکیوں کے غائب ہونے کی تصدیق کر دی

سامنے لائی جانے والی لڑکیاں وڈیو میں دکھائی دینے والی لڑکیوں سے مختلف ہیں ،ْ عدالت میں رپورٹ پیش

جمعرات 1 دسمبر 2016 20:58

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 دسمبر2016ء) کوہستان ویڈیو اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے سیشن جج کی سربراہی میں بنائے گئے کمیشن نے لڑکیوں کے غائب ہونے کی تصدیق کر دی۔۔جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں اپیکس عدالت کے 2 رکنی بینچ نے 10نومبر کو سیشن جج کو ڈسٹرکٹ پولیس افسر( ڈی پی او) اور سینئر خاتون پولیس افسر کے ہمراہ جائے وقوع کے دورے کے احکامات جاری کرتے ہوئے انکوائری رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

سپریم کورٹ میں کوہستان وڈیو اسکینڈل کیس کی سماعت جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی جس میں سیشن جج کوہستان کی جانب سے انکوائری رپورٹ جمع کرائی گئی۔رپورٹ میں عدالت کو بتایا گیا کہ سامنے لائی جانے والی لڑکیاں وڈیو میں دکھائی دینے والی لڑکیوں سے مختلف ہیں۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں بتایا گیا کہ کمیشن کی جانب سے لڑکیوں کے والدین اور اہل خانہ سے اصرار کیا گیا کہ ظاہر کی جانے والی لڑکیوں کی تصاویر لینے کی اجازت دی جائے جس پر وہ راضی نہ ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہی بہت بدنامی ہو چکی ہے اور وہ دوبارہ ایسا کچھ نہیں چاہتے۔

رپورٹ کے مطابق کمیشن کے سامنے پیش کی جانے والی امینہ اور سرن جان نامی لڑکیوں کے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق نہیں ہو سکی، اور امینہ ظاہر کی گئی لڑکی کے دونوں انگوٹھے جلے ہوئے تھے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ سرن جان کے نام سے ظاہر کی گئی لڑکی کا والد اسکی عمر نہیں بتا سکا اور سرن جان ظاہر کی جانے والی لڑکی کی عمر 16 سال تھی یعنی 2010 میں جب یہ واقعہ پیش ا?یا وہ صرف 9 یا 10 برس کی ہوگی۔

دوسری جانب بیگم جان ظاہر کی جانے والی لڑکی کی عمر میں بھی تضاد پایا جاتا ہے، ،ْ چوتھی لڑکی بازیگا کی عمر بھی درست نہیں بتائی گئی۔رپورٹ میں کہا گیا کہ کمیشن اس نتیجے پر پہنچا کہ لڑکیاں یا تو زندہ نہیں یا لاپتہ کردی گئی ہیں،جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت کو 8 دسمبر تک ملتوی کردیا۔یاد رہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان کے ایک نوجوان نے 2012 میں میڈیا پر آکر یہ الزام عائد کیا تھا کہ ان کے 2 چھوٹے بھائیوں نے شادی کی ایک تقریب کے دوران رقص کیا، جس پر وہاں موجود خواتین نے تالیاں بجائیں۔

تقریب کے دوران موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیو بعد میں مقامی افراد کے ہاتھ لگ گئی، جس پر مقامی جرگے نے ویڈیو میں نظر آنے والی پانچوں لڑکیوں کے قتل کا حکم جاری کیا جبکہ بعد ازاں ان لڑکیوں کے قتل کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔یاد رہے کہ دو ہفتے قبل سپریم کورٹ نے کوہستان کے سیشن جج کو ویڈیو اسکینڈل میں 5 لڑکیوں سمیت 8 افراد کے مبینہ قتل کی مزید انکوائری کا حکم جاری کیا تھا جنہیں 2012 میں عدالت کے ازخود نوٹس کی سماعت میں زندہ قرار دیا گیا تھاقبائلی افراد کی جانب سے ویڈیو میں موجود لڑکوں اور لڑکیوں کو قتل کرنے کے احکامات جاری ہونے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد اپیکس کورٹ نے 2012 میں معاملے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

اکتوبر میں سپریم کورٹ میں زیر سماعت کوہستان ویڈیو اسکینڈل کے معاملے پر سماجی رضاکار فرزانہ باری نے بھی لڑکیوں کے قتل سے متعلق شواہد پر مبنی دستاویزات اور ویڈیو عدالت میں جمع کرائی تھیں، جس کے مطابق جو لڑکیاں کمیشن کے سامنے پیش کی گئیں تھیں وہ ویڈیو میں نہیں تھیں۔