قومی اسمبلی ، اپوزیشن اور حکومتی ارکان ایل او سی پر بلااشتعال بھارتی جارحیت کے خلاف یک زبان ہوگئے

ایل او سی پر بھارتی جارحیت اور آزادکشمیر کی سویلین آبادی کو نشانہ بنانے کے اقدام کا منہ توڑ جواب دیا جائے، لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت سے پیدا ہونے والی صورتحال پر غور اور اس بارے میں قومی پالیسی کی تشکیل کیلئے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جائے، اے پی سی بلا کر تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے،ارکان قومی اسمبلی کا مطالبہ

جمعہ 25 نومبر 2016 16:28

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 25 نومبر2016ء) قومی اسمبلی میں اپوزیشن اور حکومتی ارکان لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال بھارتی جارحیت کے خلاف یک زبان ہوگئے،ارکان اسمبلی نے بھارتی جارحیت کی پرزور مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ایل او سی پر بھارتی جارحیت اور آزادکشمیر کی سویلین آبادی کو نشانہ بنانے کے اقدام کا منہ توڑ جواب دیا جائے،ارکان نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت سے پیدا ہونے والی صورتحال پر غور اور اس بارے میں قومی پالیسی کی تشکیل کیلئے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جائے اور اے پی سی بلا کر تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے۔

جمعہ کو وزیرقانون و انصاف زاہد حامد نے لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت سے پیدا صورتحال پر بحث کیلئے تحریک پیش کی جسے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کیا جس کے بعد بحث کا آغاز ہوا،ایم کیو ایم کے شیخ صلاح الدین نے بحث کا آغاز کیا بحث میں غوث بخش،صاحبزادہ طارق اللہ،قیصر شیخ،شاہدہ رحمانی،طاہرہ اورنگزیب،جی جی جمالی،مسرت زینب،اعجاز الحق،نوید قمر،شذرہ منصب علی،جمالدین،طارق فضل چوہدری و دیگر نے حصہ لیا۔

(جاری ہے)

ایم کیو ایم کے رکن شیخ صلاح الدین نے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کیساتھ قریبی تعلقات ہیں،وزیراعظم نوازشریف کو انہیں فون کرنا چاہیے تھا اور دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہیے تھا۔انہوں نے کہاکہ قوم متحدہ ہے،اگر بھارت جارحیت جاری رکھتا ہے تو ہمیں بھرپور جواب دینا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ ایل اوسی پر کشیدہ صورتھال پر فوراً آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے تاکہ ایسا لائحہ عمل بنایا جاسکے کہ بھارت کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جاسکے۔

مسلم لیگ (ن) کے غوث بخش مہر نے کہا کہ ایل او سی پر موجودہ صورتحال پر ہمارے یہاں دوست عجیب باتیں کر رہے ہیں،وزیراعظم نوازشریف اس معاملے کا سنجیدہ نہیں،وزیراعظم نوازشریف نے دنیا بھر میں کشمیر کا معاملہ اٹھانے کیلئے اس ہائوس میں سے وفود منتخب کرکے بیرون ممالک بھیجے،حکومت اور اپوزیشن کی آج اگلی نشستیں خالی پڑی ہیں اتنا اہم اور سنجیدہ مسئلے پر ایوان میں بحث ہورہی ہے مگر یہاں کوئی موجود نہیں،حکومت ایل او سی پر فوراً سیکیورٹی کونسل کا اجلاس بلائے۔

جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے کہاکہ جب بھی پاکستان کی جانب سے کشمیر کا مسئلہ دنیا کے سامنے اٹھایا جاتا ہے تو بھارت بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرحدوں پر کشیدگی بڑھا دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیرکی آزادی کیلئے ایسی تحریک شروع ہوئی ہے کہ اب مقبوضہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ وزیراعظم نے جو وفود کشمیر کے معاملے پر بھیجے ان میں صرف مسلم لیگ کے لوگ تھے،وفد بیرون ممالک گئے تو ضرور مگر انہوں نے ادھر جا کر کیا کیا ہمیں نہیں پتا۔

انہوں نے کہاکہ حکومت فوری آل پارٹیز کانفرنس بلائے۔انہوں نے کہاکہ ہم اگر بھارت پر حملہ نہیں کرسکتے تو کم از کم ہم ڈٹ کر ان کا مقابل تو کریں ۔انہوں نے کہاکہ سرحدوں پر حالات کشیدہ ہیں مگر حکومت نے نیشنل سیکیورٹی کونسل کا اجلاس نہیں بلایا،وزیراعظم نوازشریف ایوان میں آکر ہمیں سرحدوں پر کشیدہ صورتحال سے آگاہ کریں۔مسلم لیگ(ن) کے قیصر احمد شیخ نے کہاکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیراعظم نوازشریف نے کشمیر کا مسئلہ عالمی سطح پر اٹھانے کیلئے پارلیمنٹ کے وفود بھیجے،ان وفود میں بھی شامل تھا سینیٹر قیوم اور میں نے برطانیہ کے پارلیمینٹرین سے ملاقاتیں کی اور ہمیں بہت مثبت جواب ملا۔

انہوں نے کہاکہ دنیا بھر میں موجود پاکستان کے سفارتخانوں میں ایک ڈیسک ہونا چاہیے جس کی ذمہ داری صرف کشمیر کا معاملہ اٹھانا ہو۔انہوں نے کہاکہ بھارت میں بہت تعداد میں غیرملکی سرمایہ کار آرہا ہے،اگر سرحدوں پر کشیدگی اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی جانب سے نہتے کشمیریوں پر تشدد سے وہ سرمایہ کار واپس چلے جائیں گے۔جنگ سے زیادہ نقصان بھارت کو ہوگا۔

پیپلزپارٹی کی رکن شاہدہ رحمانی نے کہاکہ بھارت کی جانب سے مسافر بس اور ایمبولینس پر گولہ باری انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے،بھارتی فوج روزانہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔انہوں نے کہاکہ بھارتی فوج کی جارحیت کی وجہ سے ہمارے فوجی جوان اور سیویلین شہید ہوچکے ہیں مگرحکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی پر جس کانفرنس نہیں ہو،وزیراعظم نوازشریف ایوان میں آئیں اور ہمیں بھارت کے حوالے سے پالیسی بارے بتائیں،حکومت فوری طور پر آل پارٹیز کانفرنس بلائے۔

مسلم لیگ (ن) کی طاہرہ اورنگزیب نے کہاکہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اگر کشمیر میں خون بہہ رہا ہے تو پاکستان کو درد ہورہا ہے،بھارت کی جارحیت کیخلاف ہم سب متحد ہیں،ہماری پاک افواج بھارتی جارحیت کا جواب جارحیت سے نہیں دینا چاہتی اور اس کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔فاٹا کے جی جی جمال نے کہا کہ بھارت دہشتگرد ریاست ہے،دنیا بھر میں بھارتی دہشتگردی واضح ہونے لگی تو اس نے سرحدوں پر جارحیت شروع کردی ہے،تحریک انصاف کی مسرت زیب نے کہاکہ سرحدوں پر حالات کشیدہ ہیں،ہمارے فوجی اور سویلین مر رہے مگر وزیراعظم نوازشریف نے نہ اس حوالے سے قوم سے خطاب کیا اور نہ ہی کوئی بریفنگ دی یہ وقت متحد ہو کر کھڑے ہونے کا ہے۔

اس کے علاوہ کشمیر کممیٹی کے چیئرمین کا بھی موجودہ حالات پر بیان نہیں آیا۔ سرحدوں پر اتنے حالات کشیدہ ہونے کے باوجود قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس نہیں بلایا گیا۔ انہوں نے کہا ہک بھارتی افواج کی جارحیت سے سویلین شہید ہورہے ہیں مگر حکومت کی جانب سے کوئی نمائندہ ان سویلین کے پاس نہیں گیا۔ کیا فوج اب سویلین کے پاس جانے کی بھی زمہ داری پوری کرے گی۔

مسلم لیگ ضیاء شہید گروپ کے صدر اعجاز الحق نے کہا کہ لائن آف کنٹرول پر پاکستان عرصے سے حالت جنگ میں ہے۔ برہان وانی کی شہادت نے مسئلہ کشمیر کو از سرنو زندہ کردیا ہے۔ بھارت نے تحری کو دبانے کے لئے مسلسل کرفیو نافذ کررکھا ہے 250 کشمیری شہید اور 150 کی بینائی ضائع ہوگئی۔ زہریلی کیمیکل والی آنسو گیس استعمال کی جارہی ہے بھارت ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کررہا ہے۔

میری قیادت میں ایک وفد برسلز کا دورہ کرکے آیا ہے ہم نے وہاں کی حکومت اور ارکان پارلیمنٹ سے ملاقاتیں کی ہیں اب دنیا کشمیر پر توجہ دے رہی ہے عالمی میڈیا بھی بھارتی مظالم کو اجاگر کررہا ہے۔ سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسک بنانے کی ضرورت ہے۔ لائن آف کنٹرول پر بھارت کی طرح پاکستان بھی ایک نفر زون بنائے اور ب فر زون سے آبادی کو پیچھے منتقل کیا جائے۔

جنگ ڈیکلیئر نہیں کرنی چاہئے مگر لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ہمیں بھی جارحانہ پالیسی اختیار کرنی چاہئے اور جواب دینا چاہئے۔ پاکستان مسئلہ کشمیر سکیورٹی کونسل میں لے کر جائے اور ویٹو ہونے سے نہ ڈرے۔ بھارت بات کرنے کے لئے تیار نہیں لیکن برطانوی وزیر خارجہ دو طرفہ بات چیت کا مشورہ دیکر دیواروں سے بات کرنے کے لئے کہہ رہے ہیں۔

پی پی پی کے ایاز سومرو نے کہا کہ کشمیریوں نے کیا قصور کیا ہے کہ بھارتی دہشت گرد فوج سویلین ٹرانسپورٹ کو بھی نشانہ بنا رہی ہے۔ حکومت کی اس ایشو پر خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہمارے دور حکومت میں بھارت کو پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں ہوئی۔ موجودہ حکمرانوں کے بھارتی حکمرانوں کے ساتھ ذاتی تعلقات ہیں تمام سفراء سفارشی ہیں اس لئے سفارتی طور پر ہم ناکام ہوچکے ہیں فوجی افسران شہید ہورہے ہیں اور ہم صرف مذمت پر گزارہ ررہے ہیں۔

(ن) لیگ کے ملک ابرار نے کہا کہ بھارت کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے لیکن کشمیری آزادی کی جدوجہد سے دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں پوری دنیا کشمیریوں کا ساتھ دے۔ کشممیری گولیاں کھا کر بھی پاکستانی پرچم لہرا رہے ہیں کشمیری کٹ مرنے کے لئے تیار ہیں لیکن بھارتی غلامی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہماری افواج بھارتی جارحیت کا جواب دے رہی ہیں ایک فوجی کے بدلے ہماری افواج پانچ بھارتی فوجیوں کو جہنم واصل کررہی ہے۔

شذرہ منصب علی خان نے کہا کہ نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم کے درمیان گہرا گٹھ جوڑ موجود ہے میں وزیراعظم کے ایلچی کے طور پر مشاہد حسین کے ہمراہ امریہ کا دورہ کیا اور کشممیریوں پر بھارتی مظالم کو بے نقاب کیا وائٹ ہائوس اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے ملاقاتیں ہوئیں اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کیا چھرے والی بندوقیں جانوروں کے شکار کے لئے استعمال ہوتی تھیں اب جانوروں پر استعمال پر بھی پابندی لگ گئی لیکن بھارت ان بندوقوں کو کشمیریوں پر استعمال کررہا ہے۔

مولاناجمال الدین نے کہا کہ ارکان کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ کشمیر جیسے ایشو پر بحث کے دوران 342 کے ایوان میں سے صرف 62ارکان موجود ہیں اگر ہم دو گھنٹے کے لئے کشمیر کے لئے ایوان میں نہیں آسکتے تو پھر کس طرح یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہم کشمیر کے ساتھ مخلص ہیں۔ اقوام متحدہ امریکہ کی بی ٹیم ہے۔ سید نوید قمر نے کہا کہ بھارت پاکستان کو عالممی سطح پر تنہا کرنا چاہتا ہے بھارت ایک بڑی معیشت اور تجارتی منڈی ہے اس لئے کوئی اسے ناراض نہیں کرنا چاہتا چاہے وہ کشمیر میں جتنے مظالم کرے اور لائن آف کنٹرول پر جتنی خلاف ورزیاں کرے۔

سارک کانفرنس کا التواء پاکستان کی سفارتی تنہائی کا عملی مظاہرہ تھا۔ بھارت جنگی ج نون میں مبتلا ہوچکا ہے ہمیں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی پالیسی اختیار نہیں کرنی چاہئے بھارت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں اپنی معیشت کو مضبوط کرنا چاہئے۔ مستقل وزیر خارجہ کی تقرری ضروری ہے بے شک سرتاج عزیز ہی کو سینیٹر بنوا کر وزیر خارجہ بنا دیا جائے۔