وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر پر بھرپور انداز میں آواز بلند کی،بھارتی مظالم دیکھ کر بیلجیئم کے سپیکر کی آنکھوں میں آنسو آگئے، بیرون ملک سفارتخانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کئے جائیں، ہماری پالیسی امن کی ہے تاہم لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے،اعجاز الحق کا کنٹرول لائن پر جارحیت سے پیدا ہونے والی صورتحال پر بحث کے دوران اظہار خیال

جمعہ 25 نومبر 2016 15:33

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 نومبر2016ء) مسلم لیگ (ضیائ) کے سربراہ محمد اعجاز الحق نے کہا ہے کہ اگرچہ ہماری پالیسی امن کی ہے تاہم لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے‘ پہلی مرتبہ وزیراعظم محمد نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر پر بھرپور انداز میں آواز بلند کی ہے جس سے یہ مسئلہ ساری دنیا میں اجاگر ہوا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ بھارت دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے ہٹانے کے لئے ایل او سی پر حملے کر رہا ہے‘ انہوں نے تجویز دی کہ بیرون ملک تمام پاکستانی سفارتخانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کئے جائیں۔

جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر جارحیت سے پیدا ہونے والی صورتحال پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ (ضیائ) کے سربراہ محمد اعجاز الحق نے کہا کہ 8 جولائی کے بعد مقبوضہ کشمیر میں برہان وانی کی شہادت کے بعد کرفیو لگا ہوا ہے۔

(جاری ہے)

اب تک 150 سے زیادہ افراد شہید ہو چکے ہیں اسی طرح سیکڑوں لوگ اپنی بینائی کھو چکے ہیں۔

پیلٹ گنوں میں کیمیکلز استعمال کئے جارہے ہیں۔ ہزاروں لوگ معذور ہوگئے ہیں۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی ریاستی دہشتگردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ عالمی سطح پر یہ مسئلہ اجاگر ہوا ہے۔ اس وجہ سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لئے ایل او سی پر حملے ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم نے پہلی مرتبہ جنرل اسمبلی میں کشمیر کے حوالے سے دو ٹوک انداز میں اپنا موقف پیش کیا ۔

انہوں نے بتایا کہ وہ اور ملک عزیر برسلز گئے جہاں انہوں نے کشمیر کے حوالے سے بات کی۔ ہم نے وہاں تین دن کے اندر 30 سے 35 ملاقاتیں کیں۔ بھارتی مظالم دیکھ کر بیلجیئم کے سپیکر کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ہم اس دورے کی رپورٹ مرتب کرکے پارلیمنٹ میں پیش کریں گے۔ بیرون ملک سفارتخانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پالیسی امن کی ہے تاہم لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ بھارت کو سبق سکھانا چاہیے۔ اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں پیش کیا جائے۔ مشیر خارجہ کوہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں جانا چاہیے۔