حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے چار مطالبات کا جائزہ لے رہی ہے اور اس پر پی پی پی کے ساتھ بات چیت بھی کرے گی تاہم ان میں سے بعض مطالبات محض سیاسی نعرہ اور پوائنٹ سکورنگ کے لئے ہیں، حکومت کو بلا جواز ڈکٹیٹ نہ کیا جائے

بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے اس طرح کے مطالبات کرنا پختہ سوچ کے عکاس نہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں سینیٹر عبدالقیوم ، اراکین قومی اسمبلی قیصر احمد شیخ، میجر (ر) طاہر اقبال،خلیل جارج اور مسلم لیگ (ضیا) کے سربراہ اعجاز الحق کی اے پی پی سے گفتگو

جمعرات 24 نومبر 2016 16:35

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 نومبر2016ء) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے چار مطالبات کا جائزہ لے رہی ہے اور اس پر پی پی پی کے ساتھ بات چیت بھی کرے گی تاہم ان میں سے بعض مطالبات محض سیاسی نعرہ اور پوائنٹ سکورنگ کے لئے ہیں، حکومت کو بلا جواز ڈکٹیٹ نہ کیا جائے۔

بلاول بھٹو زرداری کے چار مطالبات کے حوالے سے جمعرات کو ’’اے پی پی‘‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاعی پیداوار کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی سے متعلق وزیراعظم محمد نواز شریف نے اپنا موقف سامنے رکھ دیا ہے۔ حکومت اس حوالے سے سنجیدہ ہے اور اتفاق رائے سے فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔

(جاری ہے)

پی پی پی کے پانامہ بل کی منظوری سے متعلق مطالبہ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو ابھی ناتجربہ کار سیاست دان ہیں، انہیں اس بات کا علم نہیں کہ پارلیمنٹ سے قانون منظور کرانے کے لئے صرف خواہشات ہی کافی نہیں ہوتیں بلکہ اس کے لئے طے شدہ قواعد و ضوابط پورے کرنے پڑتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں پیش ہونے والے کسی بھی بل پر مقررہ طریقہ کار اور ضروری عمل مکمل ہونے پر ایوان میں رائے شماری کے بعد اکثریت کے فیصلے کے مطابق بل منظور ہوتے ہیں۔

پانامہ پیپرز سے متعلق کسی بل کے حوالے سے بھی اسی پارلیمانی طریقہ کار کی پیروی کی جائے گی۔ سی پیک کے حوالے سے پی پی پی کی قرارداد پر عمل درآمد کے مطالبہ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کسی ایک صوبے یا علاقے کا نہیں بلکہ ایک قومی مفاد کا حامل ایک عظیم الشان منصوبہ ہے اور حکومت نے اس اہم نوعیت کے منصوبہ پر ہر سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی۔

جن صوبوں کے اس حوالے سے تحفظات تھے، وہ دور کئے گئے ہیں۔ وزیر خارجہ کی تقرری کے مطالبہ کے حوالے سے سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ سرتاج عزیز ایک تجربہ کار اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں جو وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور مقرر ہیں اور وہ بہتر انداز میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے بھی جس طرح وزارت خارجہ اپنے پاس رکھی اسی طرح وزارت خارجہ کا قلمدان بھی وزیراعظم محمد نواز شریف کے پاس ہے، یہ کوئی آئینی خلاف ورزی نہیں ہے۔

پارلیمانی سیکریٹری و مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی طلال چوہدری نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کے چار مطالبات میں سے بعض مطالبات پر عمل درآمد ہو جائے گا جبکہ کچھ مطالبات صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے ہیں۔ پارلیمانی سیکریٹری خلیل جارج نے کہا کہ حکومتیں اپنی ترجیحات پر چلتی ہیں۔ وزیراعظم محمد نواز شریف جس طرح حکومت چلا رہے ہیں اس میں بہتری نظر آ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس معاملے پر بہتری کی ضرورت محسوس ہو، اس پر عمل کیا جاتا ہے۔ ہم نے کسی کی ہدایت پر حکومت نہیں چلانی۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کے مطالبات صرف سیاسی نعرہ ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی قیصر احمد شیخ نے کہا کہ حکومت بلاول بھٹو زرداری کے چار مطالبات کا جائزہ لے رہی ہے۔ حکومت نے پیپلز پارٹی سے یہ بھی کہا ہے کہ اس کے ساتھ بیٹھ کر اس حوالے سے بات چیت کی جائے گی۔

ان کے مطالبات جس قدر قابل عمل ہوئے، ان پر ضرور عمل کیا جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی میجر (ر) طاہر اقبال نے کہا کہ بلاول بھٹو نوجوان ہیں اور انہوں نے پارٹی قیادت سنبھالی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت ان کی باتوں پر عمل کرے۔ میں ان کو مشورہ دوں گا کہ پہلے وہ الیکشن لڑیں اور اسمبلی میں آئیں، ایسے حکومت کو ڈکٹیٹ نہ کریں۔ یہ پارلیمنٹیرینز کا کام ہے کہ وہ حکومت کو تجاویز دیں۔

وہ اپنی پارٹی کے ذریعے اپنے مطالبات اسمبلی کے اندر زیر بحث لائیں۔ اگر وہ مناسب ہوئے تو عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح 27 دسمبر کو احتجاج کی کال دینا بلا جواز ہے۔ مسلم لیگ (ضیا) کے سربراہ اعجاز الحق نے ’’اے پی پی‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے اس طرح کے مطالبات کرنا پختہ سوچ کے عکاس نہیں۔ وزیر خارجہ کی تقرری کے حوالے سے مطالبہ حکومت کے معاملات میں مداخلت کے ضمرے میں آتا ہے۔