جنوبی ایشیاء خطے میں تیزی سے ترقی کررہا ہے ،معاشی مارکیٹ کے طور پر ابھر رہا ہے ، ممنون حسین

جنوبی ایشیاء میں باہمی سطح پر غیر تصفیہ تنازعات، آپس کے پرانے تضادات کی وجہ سے عوام کی معاشی ،سماجی ترقی کو فروغ دینے میں مشکلات درپیش ہیں معاشی ترقی اور سٹرٹیجک خطرات دوہرے چیلنجز ہیں ،دنیا کی اہم بدلتی صورتحال میں جنوبی ایشیاء کو حل تلاش کرنا ہوگا،آئیڈیاز 2016 کے موقع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب

بدھ 23 نومبر 2016 18:00

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 نومبر2016ء) صدر مملکت پاکستان ممنون حسین نے کہا ہے کہ دنیا کو آج نئے چیلنجز درپیش ہیں جبکہ پرانے سیکورٹی خطرات بھی نئی ٹیکنالوجیز کی وجہہ سے تبدیل ہورہے ہیں۔ جنوبی ایشیاء ان چیلنجز سے شاندار انداز سے نمٹ رہا ہے اور اب خطے میں تیزی سے معاشی مارکیٹ کے طور پر ابھر رہا ہے ۔صدر پاکستان نے ان خیالات کا اظہار 9 ویںدفاعی نمائش آئیڈیاز 2016 کے موقع پر منعقد ہونے والے عالمی سیمینار کے موقع پر کیا۔

صدر مملکت نے کہا کہ جنوبی ایشیاء میں باہمی سطح پر غیر تصفیہ تنازعات، آپس کے پرانے تضادات بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے ان ملکوں کو اپنی عوام کی معاشی اور سماجی ترقی کو فروغ دینے میں مشکلات درپیش ہیں۔اس سال سیمینار کا موضوع ’’جنوبی ایشیاء میں علاقائی امن کی تقویت اور معاشیات ‘‘ تھا ۔

(جاری ہے)

سیمینار کا انعقاد مشترکہ طور پر آئیڈیاز 2016ء کے موقع پر انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد(ISSI) اور ڈیفنس ایکسپورٹ پروموشن آرگنائزیشن (DEPO)نے کیا تھا۔

اس موقع پر دیگر عالمی ماہرین نے بھی موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور سیمینار کے پانچ سیشنز میں اپنی ماہرانہ رائے، تجاویز اور مستقبل کی نئی سمتوں کے بارے میں بتایا۔ صدر ممنون حسین نے کہا کہ معاشی ترقی اور اسٹریٹجک خطرات دوہرے چیلنجز ہیں اور دنیا کی اہم بدلتی ہوئی صورت حال میں جنوبی ایشیاء کو ان کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ ایک پُرامن اور مستحکم جنوبی ایشیاء سے خطے کے لوگوں کو فائدہ پہنچے گا اور دنیا بھر میں تجارت اور معاشی ترقی فروغ پائے گی۔

چیئرمین (ISSI) اور سفیر (ریٹائرڈ) خالد محمود نے سیمینار کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں سیکورٹی چیلنج ایک بڑی تبدیلی سے گزر رہے ہیں اور ان میں کئی عوامل تبدیل ہوگئے ہیں جبکہ کچھ عوامل متعین ہیں اور ہر ایک کی اپنی پیچیدگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیاء کے ملکوں نے اپنی آزادی کے بعد سے ایک مشترکہ فریم ورک تشکیل نہیں دیا جو یورپی یونین یا آسیان کی طرز پر کام کرے۔

انہوں نے اس موقع پر 2003-2008ء کے دور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس دوران پاک بھارت تعلقات میں امن کی وجہ سے کس طرح فوائد حاصل ہوئے تھے اور امن ہی دونوں ملکوں کے آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ خطے اور عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے رابطوں کے ذریعے ممالک مختلف پلیٹ فارم اور فریم ورک تشکیل دے رہے ہیں اور اپنے معاشی تعاون کو مضبوط بنا رہے ہیں، اس ضمن میں چین۔

پاکستان اکانومک کاریڈور(CPEC) ایک روشنی ہے جو جنوبی ایشیاء اور دنیا کے لیے معاشی ترقی اور مواقع فراہم کرتی ہے۔اس موقع پر ڈائریکٹر جنرل ڈیفنس ایکسپورٹ پروموشن آرگنائزیشن (DEPO)، میجر جنرل آغا مسعود اکرم نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ خطے اور دنیا کی بدلتی ہوئی صورت حال میں پس منظر کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ ایک نیا عالمی نظام ابھرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جو جغرافیائی سیاست سے زیادہ جغرافیائی معیشت پر مبنی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین۔پاکستان اکانومک کاریڈور(CPEC) ، نئی سلک روڈ کا قیام، بیجنگ کا پڑوسی ملکوں سے رابطہ نہ صرف مقامی تجارت اور پیداوار کو فروغ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ملکوں کو یہ احساس ہوگیا ہے بالا دستی کے لیے جنگ اب دیرپا حل نہیں رہا ہے۔ اسی لیے اب دنیا کی اقوام اپنے وسائل سائنس، خواندگی، پیداوار اور تجارت بڑھانے کے لیے وقف کررہی ہیں۔

ہمیں فوری طور پر اپنی پوزیشن کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ جغرافیائی معیشت کے نظام سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ اس لیے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو اپنے وسائل جغرافیائی اسٹرٹیجک معاملات سے جغرافیائی معیشت کے موضوعات جیسے سائنس، خواندگی، پیداوار اور تجارت کی طرف لے جانے ہوں گے۔اس موقع پر سینیٹر مشاہد حسین نے اپنے خطاب میں ’’میٹرکس آف سیکورٹی اِن سائوتھ ایشیا‘‘ پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے نازک مسائل کے خطرات کا ذکر کیا، انہوں نے کہا کہ 19 ویں سارک سمٹ اس ماہ اسلام آباد میں ہونی تھی جو منسوخ ہوگئی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود تنائو خطے میں معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ انہوں نے خطے میں بدلتے ہوئے رجحان کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا اور خطے کو مستحکم بنانے کے لیے تجاویز پیش کیں۔ڈاکٹر اینڈریو اسمال، ٹرانس اٹلانٹک فیلو، ایشیا پروگرام ، جرمن مارشل فنڈ ، یو ایس اے نے اس موقع ’’جنوبی ایشیا میں مستحکم امن: بڑی قوتوں کا کردار‘‘ پر اظہار خیال کیا۔

انہوں نے خطے کی نئی رابطہ اسکیموں کی اہمیت کا تجزیہ پیش کیا، اس میں CPEC، چین سے ملحق پٹی، سڑکوں کی تعمیر، دیگر عالمی کوششیں اور دیگر جن سے جنوبی ایشیاء میں امن مستحکم ہوگا کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی حساسیت ایسے منصوبوں کی بقاء کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ خطے میں آزاد معاشی رابطوں کے پلیٹ فارم کی تعمیر اور ان اقدامات کے لیے عالمی اتفاق سے خوش حالی آئے گی۔

تاہم، جنوبی ایشیا میں کسی حد تک معاشی مسابقت ضروری ہے۔ڈاکٹر او لیگ کولاکوو، ایڈوائزر، سینٹر فار انرجی اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز(CENESS) نے جنوبی ایشیا کے خطے میں معاشی ترقی، امن اور مسائل کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔دنیا میں دیگر ملکوں کو بھی اسی طرح کے مسائل درپیش ہیں۔ خطے کے معاملات میں غیر علاقائی عناصر اور ان کے اپنے مفادات کی وجہ سے مشکلات میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔

سیکورٹی کے مسائل معاشی چیلنجز سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایسے خطرات جن سے سرمایہ کاری اور ملازمتوں کے مواقع کو خطرات لاحق ہوں وہ ایسے امکانات کو جنم دیتے ہیں جن سے متوازی معیشت کو فروغ ملتا ہے اور عدم استحکام پروان چڑھتا ہے۔انہوں نے کہا کہ معاشی ترقی اور منصوبوں کی تکمیل خطے میں امن سے جڑی ہوئی ہے۔ افغانستان میں داخلی جنگ اور پاکستان اور بھارت کے مابین تنائو سے خطے میں معاشی ترقی کے لیے بہتر صورت حال پیدا نہیں ہوتی ہے۔

ڈاکٹر یے ہائیلن، چیف ایڈیٹر، سائوتھ ایشیا اسٹڈیز نے ’’علاقائی رابطہ اور امن‘‘ کے بارے میں اظہار خیال کیا اور اس ضمن میں CPEC کی اہمیت اور اثرات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ CPEC ایک اہم راہداری ہے جو نہ صرف جنوبی ایشیا اور مشرق ایشیا اور ساتھ ہی مغربی و مشرقی ایشیا کے لیے بھی اہم ہے، یہ اہمیت جغرافیائی، سیاسی اور معاشی تینوں اعتبار سے ہے۔

CPEC اور دیگر رابطوں کے منصوبوں کا مطلب علاقائی اور عالمی رابطوں کا مزید استوار ہونا ہے۔ اس لیے اسٹریٹجک بھروسہ اور استحکام ضروری ہے تاکہ جغرافیائی مشکلات پر قابو پایا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ جو ادارے CPEC جیسے منصوبوں پر کام کررہے ہیں وہ اصل اثرات پر بھی توجہ مرکوز کریں، اس کے لیے بہتر اہداف کا تعین کریں، اپنے شراکت داروں کا سوچ سمجھ کا چنائو کریں، عالمی سطح پر جامع حکمت عملی ترتیب دیں اور علاقائی طاقت کے توازن کو بہتر بنانے کے لیے کام کریں۔

سینیٹر (ر) جاوید جبار نے اس موقع پر علاقائی امن رابطوں کے حوالے سے اظہار خیال کیا اور کہا کہ جنوبی ایشیا ہو یا پھر دنیا کا کوئی اور خطہ استحکام اسی وقت یقینی ہوگا جب ملٹری استحکام ہوگا۔ اور یہ ملٹری قوت، ہارڈ پاور کے حامل ملکوں کے باہمی اتفاق سے ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خالص جنوبی ایشیائی سطح پر پاور کا توازن غیر متناسب ہے۔ بھارت برابر روایتی ہتھیاروں کا بھرمار جمع کررہا ہے اور دنیا میں سب سے بڑا جنگی ہتھیاروں کا درآمد کرنے والا ملک ہے۔

اس غیر متناسب صورت حال کو نیوکلیئر ہتھیاروں کی موجودگی سے توازن حاصل ہوتا ہے اور جو دونوں ملک یعنی پاکستان اور بھارت کے پاس موجود ہیں۔ اسی طرح جب ہتھیاروں کی موجودگی اور ملکی ثقافت مشترک کام کرے تو تشکیل پانے والی مخلوط قوت زیادہ پائیدار اور متوازن ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی ہارڈ پاور اور سوفٹ پاور کے ملاپ یعنی مخلوط قوت کو حاصل کرنے کی کوشش کرے اور اس کے زیر تحت ایسی پالیسی تشکیل دے جن سے جنوبی ایشیاء میں امن، پیداوار اور خوشحالی کو فروغ ملے ۔

غیر تصفیہ تنازعات کو ملٹی لیٹرل ڈپلومیسی کے ذریعے حل کرے۔اس موقع پر سفیر شمشاد احمد خان نے اپنے اختتمامی کلمات میں کہا کہ سیکورٹی آرکیٹیکچر کا پاکستانی وژن باہمی، علاقائی اور عالمی سطح پر موجود عدم استحکام پیدا کرنے والے عوامل کو دور کرتا ہے۔ اسٹریٹجک خطرات اور معاشی سیکورٹی بڑے چیلنجز ہیں اور بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے میں جنوبی ایشیاء کو ان چیلنجز سے نمٹنا ہوگا۔ پر امن اور مستحکم جنوبی ایشیا خطے کے لیے خوشحالی اور عالمی معیشت کے لیے تجارتی مواقع پیدا کرے گا۔

متعلقہ عنوان :